بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد سے اپنے حق کامطالبہ کریں تو ناراض ہوتےہیں


سوال

میرے اور میرے والدکے درمیان دنیاوی معاملا ت پر ناراضگی ہے ،میں تین بار بلکہ بار بار اُن کے پاؤں میں گررہاہوں ،لیکن دس سال ہوگئے ہیں کہ میں جب اس سے اپنے حق کی بات کرتا ہوں تو وہ ناراض ہوجاتےہیں اور پھراُن کی ناراضگی  ختم نہیں ہوتی، ہم نے کاروبار کا حساب بھی کیا ہے، لیکن انہوں نے مجھے اپنا حق نہیں دیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ آپ نے چوری کر کے پیسےلیےہیں،لیکن وہ میرے ساتھ بیٹھنےکے لیےتیار نہیں ہیں کہ میں اُن کے ساتھ بیٹھ کربات کرسکوں، جب کہ پیسےسب  اُن کے پاس ہیں،وہ 2012 سےخود کاروبار کر رہے ہیں اور میرا حق اُن کے پاس ہے،جب میں اُن سے اپنےحق کے بارے میں بات کرتا ہوں تو وہ ناراض ہو جاتےہیں میرےبھی بیوی، بچے ہیں، اور کاروبار کے پیسےمیرےپاس نہیں ہے، اب میراسوال یہ ہےکہ میرے والدصاحب چھوٹی سی بات پر مجھ سے ناراض ہوجاتے ہیں،میری چھوٹی سی بات بھی برداشت نہیں کرتے،توکیا اس کی وجہ سے میں گناہ گار ہوں گا یانہیں؟

وضاحت:

حق سے مراد یہ ہے کہ میں نےوالد صاحب کے ساتھ پیسے ملاکر کاروبارشروع کیاتھا،نفع ونقصان میں دونوں شریک تھے،پھر والدصاحب نےمجھ سے کاروبار علیحدہ  کرلیا، کاروبار میں دونوں کاجونفع ونقصان ہواتھاہم نے اُس کاحساب لگایا،لیکن اُس (نفع ونقصان )میں میراجو حق بنتاتھاوہ والد صاحب نے تاحال مجھے نہیں دیا ہے،اور میں جب بھی اپنے حق کامطالبہ کرتاہوں تووہ ناراض ہوجاتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں اس سلسلے میں دوطرفہ حقوق (اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر دونوں) کی حدود واضح کر دی گئی ہیں، قرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کرکے اس کی اہمیت بتلادی ہے، اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے، والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک  اپنی اولاد کی جائزخوشیوں کا خیال رکھیں، انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم و زیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔

اگر  اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنےاور اُن کےحقوق کی اداکرنےکے باوجود والدین   اولاد کا خیال نہ رکھیں، بے جا ظلم و زیادتی  اور  غصہ کریں تب  بھی اولاد کو  والد ین سے سختی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ خاندان کے کسی بڑے سے کہہ کر حکمت کے ساتھ انہیں سمجھانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جیسے دیگر امور کے بارے میں سوال فرمائیں گے،  اسی طرح اولاد کے حقوق کے بارے میں  بھی سوال ہوگا،  لیکن اولاد خود اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں،  قرآنِ پاک میں ہے کہ:"اگرتجھ پروہ دونوں  اس بات کازور ڈالیں کہ تو میرےساتھ ایسی چیزشریک ٹھہرا جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہوتوتو اُن کاکہنا نہ ماننااور دنیامیں اُن کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا"(ازبیان القرآن)،  شرک و کفر سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے؟ اس پر مجبور کرنے کے باوجود والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے ،لہٰذا سائل کوچاہیے کہ وہ اپنے والد سے معافی مانگ کراُن کو راضی کرائیں،اورآئندہ اُن کے سامنے ایسی کوئی بات نہ کریں ،جس سے وہ ناراض ہوتے ہوں،اگروالد صاحب سائل کواُس کاحق نہیں دیتےتوبہترصورت تویہ ہے کہ سائل اُنہیں اپناحق معاف کردیں ،لیکن اگرایسانہ کرسکیں توپھرخودمطالبہ کرنے کےبجائےخاندان کےکسی بڑےکوبیچ میں لاکرحکمت کےساتھ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کریں،تاہم ایسی کوئی بھی صورت اختیار نہ کریں جس سےوالد صاحب کی دل آزاری ہو۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"(وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ) أى أمرناه ان يبرّهما ويشكرهما۔۔۔۔۔۔(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ)۔۔(وَهْناً )كائنا (عَلى وَهْنٍ)۔۔۔عن أبى هريرة قال قال رجل يا رسول الله من أحق بحسن صحبتي قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك ثم أدناك فأدناك. متفق عليه وقال عليه السّلام : إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات. متفق عليه۔۔۔۔۔(أَنِ اشْكُرْ لِي) تفسير لوصينا أو بدل من والديه بدل اشتمال (وَلِوالِدَيْكَ) قال سفيان بن عيينة فى هذه الآية :من صلّى الصلوات الخمس فقد شكر الله ومن دعا لوالديه فى إدبار الصلوات الخمس فقد شكر لوالديه (إِلَيَّ الْمَصِيرُ)،المرجع فيه وعد ووعيد يعنى أجازيك على شكرك وكفرك(وَإِنْ جاهَداكَ) عطف على قوله أن اشكر (عَلى أَنْ تُشْرِكَ بِي ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ )باستحقاق الإشراك يعنى فكيف وأنت تعلم بطلان الإشراك بالأدلة القاطعة (فَلا تُطِعْهُما) فى ذلك فإن حق الله غالب على حق كل ذى حق، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- رواه احمد والحاكم وصححه عن عمران والحكيم ابن عمرو الغفاري وفى الصحيحين وسنن ابى داؤد والنسائي عن علىّ نحوه (وَصاحِبْهُما فِي الدُّنْيا) صحابا (مَعْرُوفاً) يرتضيه الشرع والعقل.(مسئلة) يجب بهذه الآية الإنفاق على الأبوين الفقيرين وصلتهما وإن كانا كافرين ،عن أسماء بنت ابى بكر قالت قدمت علىّ أمي وهي مشركة فى عقد قريش فقلت يا رسول الله ان أمي قدمت علىّ وهى راغبة أفأصلها قال نعم صليها. متفق عليه-۔۔۔(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما ؛لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره إشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ  مباح لا يمنعه العقل والشرع۔۔إلخ."

(سورة لقمان، آیة: 14،15، 255،256/7، ط: رشيدية)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

( کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث: 3 / 1382، ط: المکتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

سنن ترمذی میں ہے: 

 "عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."

(‌‌أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، 4/ 310 ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:  رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے."

وفیہ ایضاً:

"قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه."

(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،4/ 311، ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ۔"

وفیہ ایضًا:

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ترك الكذب وهو باطل بني له في ربض الجنة، ومن ترك المراء وهو محق بني له في وسطها....إلخ."

(أبواب البر والصلة،‌‌ باب ما جاء في المراء، 358/4، ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جس نے جھوٹ چھوڑدیااوروہ باطل پرتھاتواس کے لیے جنت کےڈانڈے(سرحد)میں مکان بنایاجائےگا،اورجس نےبحث وتکرار سےاحتراز کیااور وہ حق پرتھاتو اس کے لیےجنت کےدرمیان میں مکان بنایاجائے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں