بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب کا پورشن بیٹے کے نام کرنا


سوال

میرے والد صاحب نے اپنے مکان جس کے چار پورشن ہیں ،گراؤنڈ ، پہلی، دوسری، تیسری، منزل کو اپنی زندگی میں ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کو ہدیہ کردیا تھا،یعنی ہر پورشن ہم تین بھائی اور بہن کو الگ الگ دے دیا تھا،اس کام کو والد صاحب نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور ہم سب بھائیوں اور بہن کو گواہ بناکر انجام دیا تھا،اور کہا تھا کہ یہ تین پورشن اور تم تین بھائیوں اور بہن کے ہیں،اور نہ صرف مالک بنایا بلکہ پورشن کا قبضہ بھی دے دیا تھا،اور کہا تھا کہ تم سب گواہ ہوکہ پورشن آپ کو دے دیے ہیں،اور کوئی کسی کے پورشن پر قابض نہیں ہوگا،اس کام کے انجام دینے کے کچھ عرصہ بعد ہمارے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا،جس کا گراؤنڈ فلور والا پورشن تھا،اور والدین اسی بھائی کے پاس رہائش پذیر رہے،اور انہوں نے یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ پورشن اس بھائی کا ہے  اور اس میں موجود تمام چیزیں بھی اس کی ہیں،اور ہم اس بیٹے کے پاس ہی رہیں گے،لیکن یہ پورشن ہوگا اس بیٹے ہی کا،لیکن اس کے انتقال کے بعد بیٹۓ نے پورشن اپنے نام نہیں کروایا لہذااس کا مالک میں ہی ہوں،حالاں کہ اس بیٹے کا اپنا ایک بیٹا بھی ہے،اب پوتے کا اس میں حصہ نہیں ہے،میں ا س پورشن کو جس کو چاہوں دوں گا،جب کہ اس بیٹے کو زندگی میں مالک بنا کر قبضہ بھی دے چکے تھے،سوال یہ ہے کہ یہ پورشن کس کی ملکیت ہے؟بیٹے کے ورثاء میں بیوہ ،بیٹا،والدین ہیں۔

جواب

سائل کا بیان اگر واقعۃ صحیح ہے کہ والدنے مذکورہ ملکیتی مکان جس کے چار پورشن ہیں،ہر ایک پورشن(منزل)تینوں بیٹوں اور بیٹی کو مالکانہ قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دیا تھا،اور جس پورشن میں والدین مذکورہ مرحوم بھائی کے ساتھ رہتے تھے،یہ والد نے پورشن سامان سمیت اپنے اس بیٹے کو دے دیا تھا،اور یہ کہا یہ پورشن سامان سمیت تمہارا ہے،بعد ازاں اس بیٹے کی اجازت سے اس پورشن میں رہتے رہے،تو ایسی صورت میں اس بیٹے کے حق میں بھی شرعا یہ ہبہ(گفٹ)مکمل ہوگیا تھا،لہذا وہ پورشن بیٹے ہی کی ملکیت میں چلاگیا،اس کے انتقال کے بعد مرحوم بیٹے کا ترکہ ہے،اس میں بیٹے کے تمام شرعی ورثاء کا حق ہے،مرحوم بیٹے نے  اگر اپنی زندگی میں یہ پورشن اپنے نام نہیں کروایاتو اس سے ملکیت میں کوئی فرق نہیں آیا،لہذا والد صاحب  کا یہ کہنا کہ "میں اس کا مالک ہوں"اس بات کا کوئی اعتبار نہیں۔

نیز مرحوم کی وراثت تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد،اگرمرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہواسے ادا کرنے کے بعد، اوراگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کررکھی ہو اسے  باقی مال کےایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد، باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو24حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو 3حصے،والد کو4حصے،والدہ کو 4حصے،بیٹے کو 13حصے ملیں  گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت(بیٹا)۔۔۔24

بیوہوالدوالدہبیٹا
34413

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیوہ کو 12.5فیصد،والد اوروالدہ کو16.66فیصد،بیٹے کو54.16فیصد ملے گا۔

"فتاویٰ عالمگیری" میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز محن الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)

"رد المحتار" میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:690، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403102380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں