بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب کا بیٹے کو گاڑی خرید کر اور مکان تعمیر کرکے دینے کا وعدہ کرنا / بیٹوں کا والد صاحب کے خلاف اسٹے لینا


سوال

ہم سات بھائی اور دو بہن ہیں، والدہ کا 2010 میں انتقال ہوگیا، والد صاحب نے 2012 میں دوسری شادی کرلی، اکثر بھائی اور والد صاحب بیرون ملک رہتے ہیں والد صاحب 1978 میں بیرون ملک چلے گئے، اور ما شاء اللہ اچھی آمدنی تھی، ان کو جو جائیداد  ورثہ میں ملی وہ تقریبا اپنے رشتہ داروں میں انہوں نے  تقسیم کردی، اور اپنے لئے الگ زمین خریدی، گاؤں میں اور شہر میں، اور 1998 گاوں میں ایک گھر بنایا جس میں صرف چار کمرے ہیں، بمشکل دو بھائی کی فیملی رہ سکتی ہے والد صاحب کی آمدنی اچھی تھی، اس کے باوجود و ہ قرض لیتے تھے، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے سن رہے ہیں کہ والد صاحب پر قرض ہے 2008 میں والد صاحب نے میرے بڑے دو بھائیوں سے کہا کہا آپ لوگ گھر کا سارا خرچ دو سال کے لئے اٹھاؤ تا کہ میں قرض ادا کردوں (یہاں مہینہ کا خرچ تقریبا بچاس ساٹھ ہزار انڈین روپیہ ہوتا ہے)، لیکن پانچ چھ سال گزر گئے، ان کا قرض ادا نہیں ہوا، اور وہ ہمیں بتاتے بھی نہیں کہ ان کا قرض کتنا ہے، کس کے یہاں ہے، کتنا ادا ہوا ہے، اور کتنا باقی ہے؟ ایک بھائی نے جب یہ شکایت کہ میں اپنی ساری آمدنی گھر کے خرچہ پر لگا رہا ہوں، تو میرے پاس ہمارے انڈیا میں گھر نہیں ہے اور یہاں ذاتی گاڑی نہیں ہے، تو کیسے کیا ہوگا؟ تو انھوں نے کہاآپ یہاں گھر کا خرچ سنبھالو، گھر، گاڑی اور سارے بھائی کی شادی یہ میرے ذمہ میں ہے لیکن جب 2014 تک انھوں نے نہ گاڑی دلائی اور نہ گھر بنایا تو انھوں نے گھر پر خرچہ کم کردیا اور پھر اپنے پیسہ سے گاڑی لی اور گھر بھی بنایا، جب دوسرے بھائی کمانے لگے تو ان سے بھی والد صاحب کا یہی مطالبہ تھا، کہ پیسہ مجھے دو تاکہ میں قرض ادا کروں، لیکن پہلے تجربہ ہوچکا تھا کہ وہ قرض ادا نہیں کرتے، اور وعدہ بھی پورا نہیں کرتے، تو ان بھائیوں نے پیسہ ان کو نہیں دیا لیکن گھر کا کرایہ اور کچھ گھر کا خرچ اٹھاتے رہے اب انھوں نے باقی تین بھائی کی شادی کی ذمہ داری اٹھانے سے بھی انکار کردیا ہے، کہ میرے اوپر قرض بہت ہے، میں ذمہ داری نہیں اٹھاسکتا اور مزید زمینیں بیچنا چاہتے ہیں قرض ہی کی ادائگی کے لئے وہ پچھلے دس سال میں وہ ایک کروڑ سے زیادہ کی مالیت زمینیں بیچ چکے ہیں (دوسری شادی کے بعد سے) ، لیکن اب کہ رہے ہیں مجھ پر قرض ہے، مشکل یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ والد صاحب کے قرض خواہ ہیں، جب ان سے پوچھتے ہیں تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے قرض ادا نہیں ہوئے، اور ہمیں بھی کچھ علم نہیں ہوتا کہ فروخت کی ہوئی زمین کے پیسہ کہاں جاتا ہے۔ اب ان کی ملکیت میں تھوڑی سی  کھیت کی زمین باقی  ہے، جو وراثت میں ملی ہے، اور ایک دکان ہے، اور ایک ویئر ہاوس (گودام) جو کرایہ پر ہے، اور دو گھر کی زمین ہیں، ایک گاوں میں اور ایک شہر میں۔ اس پس منظر میں چند سوال ہیں :

1- والد صاحب نے جو بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے گھر کا خرچ اٹھانے کے بدلہ میں تمھارا گھر بنواؤں گا اور گاڑی دلاؤں گا، اس کا کیا حکم ہے؟ یہ بس وعدہ ہی رہے گا یا عقد ہوگا؟

2- والد صاحب مزید زمین اور دکان بیچنا چاہتے ہیں، اپنے قرض کو حجت بنا کر، تو کیا ان گھر دو زمین اور کھیت کی زمین اور دکان پر ہم قانونی اسٹے لگواسکتے ہیں، تاکہ وہ نہ بیچ سکیں، اس لئے کہ ان کے بعد قرض خواہ تو ہم سے مطالبہ کریں گے ان کے قرض کا، تو اگر یہ سب بک جائے گا تو ہم ادا کیسے کریں گے  اور اسٹے میں ہم گودام کو داخل نہیں کریں گے حس کی مالیت تقریبا ایک کروڑ ہوگی، تو اگر وہ قرض ادا کرنا چاہیں تو اس کو بیچ کر ادا کردیں  ان کے کل قرض کی مقدار تقریبا ساٹھ یا ستر لاکھ ہوگی ،آیا اسٹے لگانا اس حال میں جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائل کے والد صاحب کا اپنے بیٹےکو یہ کہناکہ :"تم گھر کا خرچہ پورا کر و میں تمہیں گاڑی خرید کر اور گھر تعمیر  کرکے دوں گا "یہ وعدہ ہے جس  کی پاسداری کرنا سائل کے والد کے ذمہ اخلاقا اور شرعا لازم تھا لہذا بلا کسی عذر وعدہ کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے سائل کے والد گناہ گا ر ہوں  گے ۔

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے: 

"قال الحنفية: الخلف في الوعد حرام إذا وعد وفي نيته أن لا يفي بما وعد، أما إذا وعد وفي نيته أن يفي بما وعد فلم يف، فلا إثم عليه".

(الأحكام المتعلقة بالوعد ،77/44، ط: دار السلاسل)

وفیہ ایضا  :

"الإيجاب والقبول بالألفاظ هو الأصل في انعقاد العقود عند جميع الفقهاء، ولا خلاف بين الفقهاء في أن الإيجاب والقبول إذا كانا بصيغة الماضي ينعقد بهما العقدی۔۔ولا ينعقد بما يدل على الاستقبال كصيغة."

(مصطلح : عقد ،ج: 30 ، ص: 202،ط: دارالصفوة ۔مصر )

2۔واضح رہے کہ مالک کو مکمل حق حاصل ہو تا ہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز میں جائز تصرفات کرے لہذا صورت مسئولہ میں  بیٹوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کے خلا ف ان کی مملوکہ زمین میں صرف اس وجہ سے اسٹے لگوائیں  کہ وہ زمین بیچ نہ سکے تاکہ بیٹے اس کو  فروخت کرکے والدصاحب کا قرض ادا کریں، اس لیے کہ جب تک والد صاحب حیات ہیں ان کے ذمہ ہے کہ اپنے قرض کی ادائیگی کریں اگر وہ اپنا قرضہ ادا کئے بغیر فوت ہوجائیں تو   ان کے ترکہ میں سے ان کے قرض کی ادائیگی کی جائے گی، اگر ان کا ترکہ ناکافی ہو تو اولاد کے ذمہ لازم نہیں کہ وہ والد کا قرضہ اپنی طرف سے اتاریں، ہاں اگر اگر کوئی اتارے تو یہ اپنے والد پر احسان ہوگا۔

در الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير  . كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر بأن يقال له : أعمر ملكك وأصلحه ولا تخربه ما لم تكن ضرورة للإجبار على التصرف ".

 (کتاب العاشر الشرکات ،3 / 201،رقم المادة:1197،ط:دارالجیل )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں