کیا والد صاحب سےان کی حیات میں اپنا حصہ مانگ سکتے ہیں جب کہ ان پر قرض بھی ہو؟
جو پیسے میں نے کاروبار کے لیے دیے ہیں،تو کیا میرے بھائیوں کا اس میں شرعی حق ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا مالک ہوتا ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی حق اورحصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اولاد کا والد سے ان کی حیات میں جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اور نہ والد پر زندگی میں تقسیم کرنا لازم ہے،خصوصاً جب کہ وہ مقروض بھی ہوں تو پہلے اپنے قرضے کی ادائیگی کریں،اس کے بعد اگر اپنی خوشی سے اپنی جائیداد تقسیم کرکے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیں تو شرعاً ایسا کر سکتے ہیں،زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی صورت میں اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) کے درمیان برابری ضروری ہے۔
اگر سائل نے کاروبارمیں اپنے ذاتی پیسے لگائے ہیں، تو سائل کی زندگی میں کسی کا بھی اس رقم میں حصہ نہیں ہے،البتہ سائل کےانتقال کے بعد جو شرعی ورثاء ہوں گے سائل کا ترکہ ان کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیاجائےگا۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."
(الكتاب الاول البيوع،الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان و الجيران،الفصل الاول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،ج:3، ص: 201،ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101950
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن