بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب والدہ کا پلاٹ میں ان کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کر سکتے ہیں


سوال

1)والدہ نے ایک سوسائٹی میں 400 گز کا پلاٹ خریدا تھا ،والدہ کا انتقال ہو چکا ہے ،والدہ کے ورثاء میں شوہر ،دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ،والدہ کے والدین کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا ،بڑی بیٹی کی جب شادی ہوئی تو ان کو اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ جانا تھا، جس کی وجہ سے سسرال والوں نے کہا کہ  انہیں جہیز کا سامان کم دیا جائے  ،والد صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے، جو والدہ والا پلاٹ ہے وہ میں بیٹی کو جہیز کی کمی کے عوض دے دوں گا ،اس بات کو بہت عرصہ گزر گیا ،پھر جب والدہ کی زندگی ہی میں جب بیٹی نے اس فلیٹ کا مطالبہ کیا تو والدہ نے کہا کہ یہ پلاٹ میرا ہے ،یہ تمہارے والد کی ملکیت نہیں ہے اور میں تمہیں یہ پلاٹ نہیں دینا چاہتی ہوں ،اس پر والد بھی خاموش ہو گئے ،ابھی والدہ کا انتقال کے بعد بیٹی مطالبہ کر رہی ہیں کہ یہ پلاٹ میرا ہے،سوال یہ ہے کہ یہ پلاٹ بیٹی کا ہوگا یا تمام وارثوں کا ؟

2)والد صاحب نے جو بڑی بہن کو کم جہیز دیا تھا ،اور والد صاحب یہ پلاٹ ان کو نہیں دے سکے تو کیا اس کے عوض والد صاحب کچھ اور دینے کے پاپند ہیں یا نہیں ؟بڑی بہن والد کے ساتھ ہی رہ رہی ہے،والد صاحب نے ہی ان کو جائیداد اور مکان دیا ہے ، شوہر نے ان کو کچھ نہیں دیا ہے ،شوہر نے تو اسی زمانہ میں 1983 میں ہی علیحدگی  اختیار کر لی تھی ۔

جواب

1)صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ  یہ پلاٹ والدہ نے خریدا تھا اور والدہ ہی اس کی مالک تھیں اور والدہ نے بیٹی کو یہ پلاٹ دینے سے انکار بھی کر دیا ہے تو یہ پلاٹ بدستور والدہ ہی کا ہے اور والدہ کے ورثاء میں مندرجہ ذیل طریقے سے تقسیم ہوگا ،چوں کہ یہ گھر بیٹی کا ہی نہیں اس لیے اس کا  مطالبہ درست نہیں ہے۔ تقسیم  کاشرعی  طریقہ  یہ  ہے کہ مرحومہ کے  حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد،اگر ان کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد ،اگر  انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 32 حصوں میں تقسیم کر کے شوہر کو 8 حصے ،ہر ایک بیٹے کو 6 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے:

4 / 32

شوہر بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
13
8663333

یعنی 100 فیصد میں سے شوہر کو 25 فیصد ،ہر ایک بیٹے کو  18.75 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 9.375 فیصد ملے گا ۔

2)واضح رہے کہ شادی کے موقع پر شریعت نے سوائے مہر کے اور کوئی چیز واجب نہیں کی ہے ،لہذا والدین پرجہیز وغیرہ لڑکی کو دینا  لازم  نہیں ہے ،اگر والدین اپنی بیٹی کوجہیز میں کچھ دیتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے بیٹی پر تبرع و احسان شمار ہوتا ہے ،لہذا اگر والد صاحب نے اس وقت بیٹی کو اگر جہیز میں کم سامان دیا تو یہ والد کی طرف سے تبرع و احسان ہے ،اب جب کہ بیٹی کی اپنے شوہر سے علیحدگی بھی ہو گئی ہے ،اور والد ہی اس کے تمام تر اخراجات اٹھا رہے ہیں تو اس صورت میں والد صاحب جہیز میں کمی کے عوض  بیٹی کو مزید کچھ دینے کے پاپند نہیں ہیں ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں