1۔ ہم 6 بھائی اور 6 بہنیں ہیں ، ایک بہن پیدائش کے بعد والد صاحب نے اپنے دوست کو دے دی تھی ، ان کی اولاد نہیں تھی ، اب وہ شادی شدہ ہے ، ہم سے ملنا جلنا کم ہے ، کیا اس کو بھی وراثت میں حصہ ملے گا؟
2۔ والد صاحب کے مکان میں دوسرے نمبر والے بڑے بھائی نے اپنی مرضی سے اپنا پیسہ لگایا گھر کو بنانے کے لیے، سب نے اس کو منع کیا ، مگر اس نے تقریباً 25 لاکھ روپے سے گھر دوبارہ تعمیر کروا دیا ، اب والد صاحب کے انتقال کو تقریباً 4 سال سے زیادہ ہو گیا ہے ، وہ بھائی جس نے پیسے اپنی مرضی سے لگائے تھے وہ یہ کہتا ہے کہ مکان میں سے حصہ والد صاحب کی تعمیر والے مکان سے ملے گا اور جو ابھی مکان کی قیمت ہے اس پر فروخت کر کے والد صاحب کی تعمیر والے مکان کی قیمت سے سب کو حصہ ملے گا اور باقی قیمت وہ خود اپنے لیے رکھے گا۔ کیا اس کا یہ کہنا درست ہے؟
1۔آپ کی مذکورہ بہن جسے والد صاحب نے اپنے دوست کو دےدیا تھا دوسری بہنوں کی طرح وہ بھی شرعًا آپ کے مرحوم والد کی میراث میں حق دار ہے، میراث کی تقسیم کا تفصیلی طریقہ کار تمام کی ورثاء کی تفصیل بھیج کر معلوم کرسکتے ہیں۔
2۔سائل کے بھائی کا یہ کہنا درست نہیں کہ : "مکان میں سے حصہ والد صاحب کی تعمیر والے مکان سے ملے گا اور جو ابھی مکان کی قیمت ہے اس پر فروخت کر کے والد صاحب کی تعمیر والے مکان کی قیمت سے سب کو حصہ ملے گا اور باقی قیمت وہ خود اپنے لیے رکھے گا۔"
لہذا اگرسائل کے بھائی نےدیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر والد کے متروکہ مکان کو تقریبًا 25 لاکھ روپے سے دوبارہ تعمیر کیا اور یہ تعمیرات تمام شرکاء کے لیے تھی تو یہ تعمیرات سائل کے بھائی کی تبرع و احسان ہے، لہذا اسےتعمیرات پر لگائی گئی رقم نہیں ملے گی اور نہ ہی اس کی وجہ سے اسے والد کے ترکہ میں سے اضافی حصہ ملے گا۔
لیکن اگر اس نے یہ تعمیرات اپنے لیے بنائی تھیں، شرکاء کے لیے نہیں بنائی تھیں تو اسے اس تعمیر کے بدلےصرف ملبے کی قیمت ملے گی اور بقیہ کل مالیت ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا ...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام 3/ 314 ط: دار الجيل) فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144107200902
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن