بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب کی ضعیف العمری میں اولاد ان کی جائیداد کو ازخود تقسیم نہیں کر سکتی ہے


سوال

1)والد صاحب حیات ہیں ،مگر ضعیف ہیں اور ذہنی اعتبار سے بھی کمزور ہو چکے ہیں ،والد صاحب نے دو شادیاں کی تھی ،جب ایک بیوی کا انتقال ہو گیا تو دوسری جگہ شادی کی ،والد صاحب کے آٹھ بیٹیاں ،چھ بیٹے اور ایک بیوہ زندہ ہے۔سوال یہ ہے کہ چوں کہ والد صاحب تو ذہنی اعتبار سے  کمزور ہو چکے ہیں تو اولاد والد صاحب کی جائیداد کی تقسیم کر سکتی ہے ،کیا دونوں بیویوں کی اولاد کو حصہ ملے گا ،جو جائیداد والد صاحب نے پہلے بیوی اور بچوں کے سامنے کمائی ہے اس میں کیا دوسری بیوی اور اور اس کے بچوں کا حق ہے یا نہیں ؟

2)والد صاحب نے بڑے بھائی  کو 25 سال پہلے ایک مکان مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ دے دیا تھا ،پھر اس کو بھائی نے ذاتی پیسوں سے تعمیر کروایااور والد صاحب نے یہ بھائی کے نام پر بھی کر دیا تھا ،والد صاحب کی رہائش اس گھر میں نہیں تھی ، تو کیا یہ والد صاحب کا شمار ہوگا یا بھائی کا ؟

3)والد صاحب کی پہلی بیوی کا انتقال اس وقت ہوا تھا جب والد صاحب کی عمر 65 سال تھی ،تو والد صاحب   نے یہ کہا تھا کہ جو مجھ سے شادی کریگا میں اس  کو ایک گھر دوں گا توپھر اس شرط پر شادی ہوئی اور   والد صاحب  نے ایک  گھر گلشن میں اپنی دوسری یبوی کو دیا تھا ،اور یہ گھر ان کے نام پر بھی کر دیا تھا ،پھر یہ پگڑی پر بھی تھا تو مکمل اپنا کرنے کے لیے والد صاحب نےایک گھر بیچ کر اس کے پیسوں میں سے   3لاکھ روپے پگڑی والوں کو دیے  اور مکمل یہ گھر اپنا کر لیا تھا اور پگڑی سے یہ گھر ختم کر لیا تھا ۔واضح رہے کہ مہر تو والد صاحب نے الگ دیا ،اور اس گھر کا کرایہ والدہ  کو ہی آتا ہے  ۔

جواب

1)واضح رہے کہ جب تک کوئی شخص  زندہ ہووہ اپنے مال کا خود مالک ہو تا ہے،اس کی اولاد اور بیوی کا  اس کی جائیداد میں  کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا ،نیز  مالک کی اجازت کے بغیراس کی جائیداد میں کسی قسم کا تصرف کرنا شرعاً ناجائزہے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگرچہ  والد صاحب ذہنی طور پر معذور ہو چکے ہیں،تب بھی اولاد پر لازم ہے کہ والد کی تمام  جائیداد کو ان کے انتقال تک محفوظ رکھیں ،از خود   تقسیم  نہیں کی جا سکتی  ،انتقال کے بعد والد صاحب کی جائیداد  اس وقت موجود ورثاء میں شرعی اعتبار سےتقسیم ہو گی ،ورثاء میں پہلی اور دوسری بیوی دونوں سے جو اولادیں ہوئیں   سب شامل ہوں گیں ۔

2)اگر یہ گھر والد صاحب نے مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ اپنے بیٹے کو دیدیا تھا تو یہ گھر والد صاحب کی ملکیت سے نکل کر بیٹے کی ملکیت  ہو گیا تھا۔

3)جب والد صاحب نے یہ گھر اپنی دوسری بیوی کو  مکمل مالکانہ  قبضہ و تصرف کے ساتھ دے دیدیا تھا،  والدہ ہی اس کرایہ وصول کررہی ہیں ،تو یہ گھر والدہ ہی کی ملکیت ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه"

( باب الغصب والعاریۃ،ج ،1،ص:261،، ط: رحمانیہ)

الاصول فی الفصول میں ہے:

"أنه ‌لا ‌يجوز ‌التصرف ‌في ‌ملك ‌الغير إلا بإذنه"

( ج:3ص:250، ط:وزارۃ الاوقاف الکویتیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي"

(کتاب الحدود  ، باب التعزیر، ج،4،ص:61،ط:سعید)

مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

(‌وتتم) ‌الهبة (بالقبض الكامل)

(کتاب الہبۃ ،ج:2،ص:353،ط:دار احیاء التراث العربی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں