بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب کی کمائی سے خریدے ہوئے گھر میں تمام ورثاء کا حق ہے


سوال

میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں ،پہلی بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ، اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی اس سے ہم دو بھائی پیدا ہوئے ،سوال یہ ہے کہ میری سوتیلی والدہ کی زمین  تھی ،جس پر میرے والد صاحب کی زندگی میں دو مکان تعمیر کیے، اس میں سوتیلے بھائیوں کی آمدنی اور ساتھ ساتھ والد کی مملوکہ لکڑیاں اور خوبانی، آلو وغیرہ فصل کی قیمت بھی خرچ ہوئی ہے، اس کے علاوہ سوتیلے بھائیوں نے اسے اپنی  ذاتی پیسوں اور والدصاحب کی جائیداد اور درختوں سے حاصل منافع کی رقم بھی شامل کر کے دوسرے شہر میں چار پلاٹ خریدے ہیں اور میں نے اپنی ذاتی کمائی سے رکشے خریدے ہیں، اس میں کسی کے پیسے نہیں ہیں ،شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ مذکورہ مکان(جس کی زمین سوتیلی والدہ کی ،اور تعمیر والد اور  سوتیلے بھائیوں کی کمائی سے ہوئی ہے اور اس میں رہائش ہے  ) اور چار پلاٹ میں میرا حصہ ہے یا نہیں اور  رکشوں میں ان کا حصہ ہے یا نہیں ؟والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔

جواب

1) مذکورہ مکان کی زمین میں  سائل کابراہ راست کوئی  حصہ نہیں بنتا، لیکن سوتیلی والدہ کی زمین  میں جو حصہ  بطورِوراثت سائل کے  والد کو ملے گا، اس میں والد کے وارث کے طور پر سائل کو  بھی حصہ ملے گا۔

2) مذکورہ مکان کی تعمیر میں جتنی رقم سوتیلے بھائیوں نے لگائی ہے وہ اسی تناسب سے اس تعمیر میں شریک ہیں، اور جتنی رقم والد صاحب کی لگی ہے اس میں والد مرحوم کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کےبقدر شریک ہیں۔ 

3) چاروں  پلاٹوں میں جتنی رقم سوتیلے بھائیوں نےلگائی ہے ،وہ اسی تناسب سے ان پلاٹوں میں شریک ہیں ،اور جتنی رقم والد صاحب کی جائیداد اور منافع سے لگی ہے اس میں والدمرحوم کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی  حصص کے بقدر شریک ہیں۔ باقی زمین اور مکان دونوں سوتیلی والدہ کے ترکہ میں تقسیم ہوں گے۔

4) رکشے اگر واقعۃً سائل نے اپنی ذاتی رقم سے خریدے ہیں،والد کی کوئی رقم اس میں شامل نہیں ہے، تو یہ رکشے سائل ہی  کی ملکیت  ہیں  ،اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له.‘‘

(مسائل شتی، ج:6، ص:747، ط:سعید)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

’’المادۃ ۸۳۱: استعارة الأرض لغرس الأشجار والبناء عليها صحيحة، لكن للمعير أن يرجع بالاعارة متى شاء، فاذا رجع لزم المستعير قلع الاشجار ورفع البناء، ثم اذا كانت الاعارة موقتة فرجع  المعير عنها قبل مضي الوقت وكلف المستعير قلع الاشجار ورفع البناء ضمن للمستعير تفاوت قيمتها بين وقت القلع وانتهاء مدة الاعارة، مثلا: اذا كانت قيمة البناء والاشجار مقلوعة حين الرجوع عن الاعارة اثني عشر دينارا وقيمتها لو بقيت الى انتهاء وقت الاعارة عشرين دينارا وطلب المعير قلعهما لزمه ان يعطي للمستعير ثمانية دنانير.‘‘

(كتاب العارية، ج:3، ص:335، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’و الربح في شركة الملك على قدر المال.‘‘

(کتاب الشرکة، مطلب فیما یبطل الشرکة، ج:4، ص:316، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144304100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں