بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد صاحب کی کمائی سے خریدے ہوئے گھر میں تمام ورثاء کا حق ہے


سوال

میرے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں ،پہلی بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی  اس کے انتقال کے بعد دوسری شادی کی اس سے ہم دو بھائی پیدا ہوئے ،سوال یہ ہے کہ میری سوتیلی والدہ کی زمین پر میرے والد صاحب کی زندگی میں دو مکان تعمیر کیے ،اس میں سوتیلے بھائیوں کی آمدنی اور ساتھ ساتھ والد کی مملوکہ لکڑیاں اور خوبانی ،آلو وغیرہ فصل کی قیمت بھی خرچ ہوئی ہے ،اس کے علاوہ سوتیلے بھائیوں نے اسے اپنی  ذاتی پیسوں اور والدصاحب کی جائیداد اور درختوں سے حاصل منافع کی رقم بھی شامل کر کے دوسرے شہر میں چار پلاٹ خریدے ہیں اور میں نے اپنی ذاتی کمائی سے رکشے خریدے ہیں، اس میں کسی کے پیسے نہیں ہیں ،شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ مذکورہ مکان اور چار پلاٹ میں میرا حصہ ہے یا نہیں اور  رکشوں میں ان کا حصہ ہے یا نہیں ؟سوتیلی والدہ کے ورثاء میں شوہر دو بیٹے اور ایک بیٹی پھر شوہر یعنی  میرے والد کا انتقال ہوا ورثاء میں چار بیٹے اور ایک بیٹی  ہے ۔

وضاحت :سائل کی والدہ کا انتقال بھی سائل کے والد سے پہلے ہوا تھا۔

جواب

1)صورت مسئولہ میں مرحومہ والدہ کے ترکہ کی تقسیم  کاشرعی  طریقہ یہ  ہے کہ مرحومہ کے  حقوق  متقدمہ یعنی اگر مرحومہ کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 180 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ،64 حصے  مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو ،32 حصے  مرحومہ کی بیٹی کو  اور دس حصے  مرحومہ کے ہر ایک سوتیلے بیٹے کو ملیں گے۔سوتیلے بھائی کابراہ راست اپنی سوتیلی والدہ کے ترکہ میں حصہ نہیں بنتا ،لیکن سوتیلی والدہ کا جو حصہ والد کو ملے گا اس میں والد کے وارث کے طور پر حصہ ملے گا ,لہذاسوتیلے بھائی کا سائل کو حصہ دینے سے انکار کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت :والدہ 180/20/4

شوہربیٹابیٹابیٹی
13
5663
فوت545427

میت :شوہر 9 ما فی الید 5

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
22221
101010105

یعنی 100 فیصد میں سے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 35.55 فیصد اور بیٹی کو 17.77 فیصد اور مرحومہ کے ہر ایک سوتیلے بیٹے کو 5.55 فیصد ملے گا ۔

2)صورت مسئولہ میں مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم  کاشرعی  طریقہ یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوق  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد  اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 9 حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بیٹے کو 2 اور بیٹی کو ایک حصہ دیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: والد 9

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
22221

یعنی 100 فیصد میں سے ہر ایک بیٹے کو 22.22 فیصد اور بیٹی کو 11.11 فیصد ملے گا ۔

3)سوتیلی والدہ کی زمین پر ان کے بیٹوں نے جو تعمیر کی اور اس میں اپنی ذاتی رقم شامل کی اور والد کی آمدنی کا حصہ بھی شامل کیا تو مکان فروخت ہونے کے بعد تقسیم سے قبل  تعمیری خرچہ منہا کیا جائے گااورسوتیلے بھائیوں نے جتنا خرچہ کیا  ہے، پہلےوہ ان کو دیا جائے گا اور والد صاحب کا جتنا خرچہ ہوا ہے وہ ان کے ورثاء میں مندرجہ بالا طریقے سے تقسیم ہوگا ،اس کے بعد مکان کی بقیہ رقم سوتیلی والدہ کے ورثاء میں مندرجہ بالا طریقے سے تقسیم ہوگی ۔

4)چار پلاٹوں میں جتنی رقم سوتیلے بھائیوں نےلگائی ہے ،وہ اسی تناسب سے ان پلاٹوں میں شریک ہیں ،اور جتنی رقم والد صاحب کی جائیداد اور منافع سے لگی ہے اس میں تمام ورثاء مندرجہ بالا حصص کے اعتبار سے شریک ہیں ۔

5)رکشے اگر واقعۃً سائل نے اپنے ذاتی رقم سے خریدے ہیں،والد کی کوئی رقم اس میں شامل نہیں ہے تو یہ رکشے سائل ہی  کی ملکیت میں ہیں  ،اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له."

(مسائل شتی،ج:6،ص:747،ط:سعید)

شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے:

المادۃ۸۳۱:استعار الارض لغرس الاشجار والبناء عليها صحيحة،لكن للمعير ان يرجع بالاعارة متى شاء،فاذا رجع لزم المستعير قلع الاشجار ورفع البناء،ثم اذا كانت الاعارة موقتة فرجع  المعير عنها قبل مضي الوقت وكلف المستعير قلع الاشجار ورفع البناء ضمن للمستعير تفاوت قيمتها بين وقت القلع وانتهاء مدة الاعارة،مثلا:اذا كانت قيمة البناء والاشجار مقلوعة حين الرجوع عن الاعارة اثني عشر دينارا وقيمتها لوبقيت الى انتهاء وقت الاعارة عشرين دينارا وطلب المعير قلعهما لزمه ان يعطي للمستعير ثمانية دنانير.

(كتاب العاريۃ،ج۳،ص۳۳۵،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"والربح في شركة الملك على قدر المال"

(کتاب الشرکت،مطلب فیما یبطل الشرکۃ ،ج:4،ص:316،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں