بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد پر بہو کےساتھ ناجائز تعلقات کے شبہ کا حکم


سوال

مجھے اپنی بیوی پر میرے والد کے ساتھ یعنی سسر کے ساتھ ناجائز تعلقات کا شبہ ہے۔گو کہ براہ راست نہ مشاہدہ اور نہ کوئی شہادت ہے لیکن حرکات و سکنات اور لب لہجہ اور ایک دوسرے کی بات کو اہمیت دینا جبکہ خاوند کی بات کو اہمیت نہ دینا اور نظرانداز کرنا ۔ جبکہ شادی کے بعد میں تقریبا 7سال محنت مزدوری کے لیے بیرون ملک رہا جس میں کبھی 2سال کے بعد گھر آنا ہوتا تھا ۔ اب جبکہ گزشتہ تقریبا چار سال سے اس پر سسر کے گھر جانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اس وجہ سے میرے والد کے ساتھ تعلقات بھی فرضی نوعیت کے ہیں صرف ضروری بات چیت کی حد تک۔میرا ضمیر روزانہ دن رات ہر وقت مجھے ملامت کرتا ہے ۔کیسی عورت میں گھر میں رکھی ہے ۔لیکن 3بچے ہیں جن کی وجہ سے طلاق دینا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔میرے معاشی حالات بھی بہت خراب ہیں ۔اب میں گھر سے دور محنت مزدوری کرنے کیلئے جانا چاہتا ہوں ۔براہ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب

سائل پراس کی بیوی اس وقت حرام ہوگی جب سائل کو یقین ہویا گمان غالب ہو کہ اس کا باپ اس کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات (بوس وکنار اور صحبت وغیرہ) قائم کرچکا ہے،    چونکہ سائل کو محض شبہ ہے، لہذا میاں بیوی دونوں کا نکاح برقرار ہے، باقی سائل ہر طرح سے  تفتیش کرکےمعاملہ کی تحقیق کرلے، اور اپنے گھر کی حفاظت یقینی بنائے،اس صورتحال میں سائل قریب ہی علاقوں میں محنت مزدوری کرے، رات گھر پر بسر کرے،  دور  سفر پر نہ جائے۔اللہ تعالی  رزق کا انتظام  کردے گا ان شاء اللہ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه۔"

(فصل فی المحرمات، ج:3، ص:33، ط:دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه۔"

(فصل فی بیان المحرمات المحلیہ الشرعیہ....، ج:3، ص:222، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں