بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان ہدیہ(گفٹ) میں برابری اوروراثت کی تقسیم کا حکم


سوال

میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں ،انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں ایک بیٹا(سائل)اور تین بیٹاں تھیں،والدین اور بیوی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہی ہوگیا تھا،ایک بیٹا اور تھا،جس کا انتقال  والد صاحب سے پہلے ہوگیا تھا،اس کے ورثاء  میں بیوہ،ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔والد صاحب نے دو جائیدادیں(ایک دوکان اور ایک پلاٹ) چھوڑی ہیں،دوکان انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ کہہ کر مجھے دےدی تھی کہ "یہ تمہاری ہے" اور قبضہ بھی دے دیا تھا اور اسی میں میرا اپنا کاروبار تھا،انہوں نے متعدد دفعہ مجھے کہا کہ یہ جائیداد اپنے نام کروا لو،لیکن میں بوجوہ اس کو اپنے نام نہیں کرپایا،دوسری جائیداد(پلاٹ)  ہم دو بھائیوں میں سے ہر ایک کو نصف نصف جگہ متعین کر کے مالکانہ حقوق و اختیارات کے ساتھ دے دی تھی اور ہر ایک کو کہا تھا کہ"یہ تمہاری ہے"،ہبہ کے وقت مذکورہ پلاٹ خالی تھا،ہماری رہائش کہیں اور تھی،پھر اس کے بعد بھائی کا انتقال ہوا تو والد صاحب نے  مرحوم بھائی کے مذکورہ نصف حصہ   پر  گھر بنا کر مرحوم بھائی کی بیوہ اور بچوں کو دے دیا تھا  اور خود بھی ان کے ساتھ رہتے تھے،بچے سارے بالغ تھے،گھر بناتے وقت سب کو پتہ تھا کہ مرحوم بھائی کی بیوہ اور بچوں کے لیے ہی بنا رہے ہیں،والد صاحب مرحوم بھائی کے بچوں اور مجھے کہتے رہتے تھے کہ یہ نصف، نصف اپنے نام کروا لو، لیکن ہم نے نام نہیں کروایا،باقی بہنوں کے حصے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں خود ان کو حصہ دے دو ں گا،علاوہ ازیں والد صاحب نے دس لاکھ روپے مجھے گھر بنانے کے لیے دے دیے تھے،لیکن پھر بہن  کو پیسوں کی ضرورت ہوئی تو میرے مشورہ سے  مجھ سے لے کر بہن کو دے دیے اور بہن کو کہا کہ"یہ تمہارا حصہ ہے"،ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ بس یہی تمہارا حصہ ہے اور میرے مرنے کے بعد کچھ نہیں ملے گا،بہن مذکورہ رقم لے کر راضی تھی،  میں نے پیسے دیتے ہوئے کہا تھا کہ"ابھی آپ بہن کو دے دیں اور بعد میں مجھے دے دیجیے گا"،باقی دو بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دیا تھا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1۔ہم جائیداد کو کس طرح تقسیم کریں؟والد صاحب  کی زبانی باتوں پر عمل کرتے ہوئے تقسیم کریں یا شرعی اصولوں کے مطابق حصوں کا تعین کریں؟

2والد صاحب نے جو گھر اپنے مرحوم بھائی کی فیملی کو بنا کر دیا تھااس کا  کیا ہوگا؟

3۔والد صاحب کے کاروباری اثاثے مرحوم بھائی کے بیٹے کے پاس ہیں، کیوں کہ وہ مرحوم والد کے ساتھ کام کرتاتھا ، اس فیملی کا گزر بسر اسی اثاثوں پر ہے،ان اثاثوں کا کیا ہوگا؟،والد صاحب نے مذکورہ اثاثے کبھی مرحوم بھائی یا اس کے بیٹے کوگفٹ نہیں کیے،میں ان جائیدادوں اور اثاثوں کی منصفانہ تقسیم چاہتاہوں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے والد نےمذکورہ  دوکان یہ کہہ کر سائل کو دے دی تھی کہ "یہ تمہاری ہے"اور اس دوکان کا مالکانہ قبضہ بھی سائل کو دے دیا  تھا تو مذکور دوکان کا ہبہ(گفٹ) شرعااس کے حق میں مکمل ہوگیاتھا اور وہ اس کا مالک ہوگیا تھا،سائل نے یہ دوکان اپنے نام نہیں کرائی تو اس سے ہبہ کے مکمل ہونے پر اثر نہیں پڑتا،اسی طرح  پلاٹ میں سے نصف نصف حصہ ہر ایک بیٹے کو متعین کر کے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ  دے دیا تھا اور ہر ایک کو کہا تھا کہ" یہ تمہارا ہے" تو مذکورہ پلاٹ  کا ہبہ بھی شرعا دونوں بھائیوں کے حق میں مکمل ہوگیا تھا۔

2۔پھر سائل کے مذکورہ بھائی کی وفات کے  بعد اس کی  فیملی کو  مرحوم بھائی کےآدھے پلاٹ پر جو تعمیرات کراکر دیں  تو وہ  تعمیرات بھی بھائی کی فیملی کی ہی شمار ہوں گی۔

3۔ والد صاحب کے متروکہ کاروبارکے  اثاثے  ان  کاترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوں گے،تاہم چوں کہ مرحوم بھائی کی فیملی کا گزر بسر انہی اثاثوں پر ہوتا ہے تو اگر والد صاحب کے تمام عاقل بالغ شرعی ورثاء اس بات پر رضامند ہوں کہ مرحوم بھائی کی فیملی  مذکورہ اثاثوں سے منافع حاصل کرتے رہیں تو ایسا کرسکتے ہیں،لیکن اگر کوئی وارث اس پر راضی نہیں تو اسے اس کاحصہ دینا ضروری ہے۔

والد صاحب نے جو دس لاکھ روپے سائل کو گھر بنانے کی مد میں دے دیے تھے تو اس کی حیثیت بھی ہدیہ(گفٹ) کی تھی،اس کے بعد بہن کو ضرورت پڑھنے کی بنا پر سائل سے لے کر بہن کو اس کے حصہ کے طور پر دے دیے اور سائل نے کہا کہ" بعد میں مجھے دے دیجیےگا" تو مذکورہ رقم بہن کو ملنے والے اس کے شرعی حصے سے منہا کی جائے گی،دس لاکھ روپے والد پر قرض شمار ہوں گے، جو سائل والد صاحب کے ترکہ سے لے سکتاہے۔

البتہ والد صاحب نے چوں کہ تمام اولاد(بیٹے اور بیٹیاں)کے درمیان ہبہ میں برابری نہیں کی ،ایک بیٹی کو صرف دس لاکھ دیے اور  باقی بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ سے والد صاحب اولاد میں نا انصافی کے مرتکب اور  گناہ گار ہوئے ،جس پر آخرت میں مؤاخذہ ہوسکتا ہے؛لہٰذا، اس کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ والد صاحب نے سائل کوجو جائیدادیں ہدیہ کی ہیں اس میں سے وہ اپنی بہنوں کو بھی حصہ دے کر ان کو راضی کرے۔

 والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات )ادا کرنے کے بعد ، مرحوم کے ذمہ جو قرض ہے ،اسے کل مال سے ادا کرنے کے  بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  مال کے تہائی  حصہ میں سے  اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ    منقولہ و غیر  منقولہ کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے زندہ بیٹے کو 2 حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک  حصہ ملے گا۔سائل کے مرحوم بھائی کا انتقال چوں کہ والد صاحب سے پہلے ہوگیا تھا،اس لیے اس کا اور اس کی اولاد کا والد صاحب کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:5۔۔والد

بیٹابیٹیبیٹیبیٹی
2111

یعنی فیصد کے اعتبار سے بیٹے کو 40 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 20 فیصد ملے گا۔

وفي الدر المحتار علی هامش:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔"

(فتاوی شامی،كتاب الوقف،مطلب فی المصادفة علی النظر،4/ 444،ط:سعید)

وفي الدر المحتار علی هامش:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل .........الخ"

(فتاوی شامی،کتاب الهبة،690/5،ط:سعید)

وفي الدر المحتار علی هامش:

"(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه."

(فتاوی شامی،کتاب  الهبة،5/ 694،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100695

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں