بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد پر اپنے ضرورت مند بیٹے کی مدد کرنا ضروری ہے یا نہیں؟


سوال

 میں کراچی کا رہنے والا ہوں ،آج کل باہر ملک میں ہوتا ہوں  آج سے کچھ ایک دو سال پہلے مجھ سے ایک غلطی ہوگئی تھی کہ  میرے بھائی نے مجھے پیسے دیے تھے  وہ پیسے میں نے بھائی سے پوچھے بغیر کاروبار میں خرچ کر دیے تھے، میں نے  کرائے پر دکان کھولی تھی اور مجھے کاروبار کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور اس میں نقصان ہو گیا تھا اس کے بعد میرا بھائی مجھ پر غصہ ہوا،  لیکن میرے گھر والوں نے اور میرے والد صاحب نے صلح کروالی، لیکن اصل وجہ جو ہے پیسہ کاروبار میں لگانے کی وہ یہ تھی کہ میرے پاؤں میں فریکچر ہو گیا تھا  میں بستر سے اٹھ نہیں سکتا تھا  اس سے پہلے میں چاندی کا کام کرتا تھا ،بغیر دوکان کے ایسے ہی لوگوں کو بیجتا تھا ،ان کی دکان پر جا کے اور ان کے پاس جا کے اور ادھار پر ،لیکن جب یہ حادثہ ہوا  اور میں کوئی کام نہیں کر سکتا تھا  اور میں نے اپنے والد صاحب سے بولا بھی تھا اور میں نے اپنے گھر والوں کو بھی بتایا تھا کہ مجھے یہ مسئلہ ہو گیا ہے اور میں بہت مشکل میں تھا ،میرے گھر والوں نے کہا کہ ہم پیسے کیسے بھیجیں؟ تو اس پر  میرے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ میرے بھائی کے پیسے تھے، میرے گھر والوں نے کہا ایک دن کا خرچہ جو ہورہا تھا وہ کوئی پاکستانی سات سے دس ہزار روپے بنتا تھا تو میں نے سوچا اچھا ایک دکان کھول لی جائے تو میں نے دوکان خالی دیکھی، ایک اپنے گھر کے سامنے  اور اس میں نقصان ہو گیا تھا، یاد رہے کہ مجھے اور بھی مسئلے مسائل ہیں اور بھی بیماریاں ہیں اور وہ اس کی رپورٹ میں موجود ہیں اور میرے پاس سارے ثبوت کے ساتھ ہے اور میری ساری ہسٹری ادھر موجود ہے۔ اس کے بعد جب مسئلے ہوئے کچھ تو میرے گھر والوں نے ابو نے اور پیسے بھیجیے،  مجھے اور یہ بولا کہ بس میں آخری بار بھیج رہا ہوں، یاد رہے کہ ہم چھ بہن بھائی ہیں اور میرے والد صاحب کو اللہ تبارک و تعالی نے بہت کچھ عطا کیا ہے اور جو بہن بھائی ہیں، خاص طور پر میں بھائیوں کی بات کر رہا ہوں، میرے دو بھائی ہیں تو ان کے پاس جو ہے ، وہ ابو نے ان کو دکانیں بھی دی ہوئی ہیں ، ایک بھائی کو اپنا گھر دیا ہوا ہے اور میں اپنے کاروبار کو آگے بڑھا رہا ہوں اور اب میں نے اتنے عرصے میں بہت ساری چیزیں سیکھ لیں، میرے بھائیوں کی اولادیں یہ بتاتا چلوں کہ میرے سارے بھائیوں اور بہنوں کی شادی ہو چکی ہے،لیکن میری شادی ابھی تک نہیں ہوئی اور وہ سب خوش ہیں، لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میرے کھانے پینے کو ہی بھیج دیں اور میرا جو ایک بنیادی خرچہ ہے جو میں پاکستان میں بھی اگر آجاؤ ،اس وقت بھی خرچ ہونا ہے، اگر میں پاکستان آگیا تو میں سب سے پہلے ابو سے اپنے کاروبار کے لیے سامنے کی دکان لوں گا، بڑی سی دکان اس کے بعد میں اپنا گھر علیحدہ لوں گا، اگر میں پاکستان آ گیا تواور یہ میرے والد صاحب نے،میرے سارے گھر والوں نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ آپ پاکستان آجاؤ، آپ کو ہر چیز دیں گے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا وہ یہ نہیں کر سکتے کہ ابھی سے وہ دکان کرائے پر دے دیں اور وہ گھر جو وہ علیحدہ سے دیں گے وہ ابھی سے کرائے پر دے دیں وہ جو کرایا ہے یہاں بھیجتے رہیں یا اتنا کر دیں کہ جو خرچہ اپنی ایک اولاد کو دے رہے ہیں وہ میرے اوپر لگا سکے اور پہلے جو خرچ ہوتے تھے ،میرے اوپر وہی دے سکے، میرے کھانے کے لیے بھیج سکیں،  اس وقت میرے اکاونٹ میں پاکستانی 30 ہزار روپے بھی نہیں ہیں، تو اب آپ یہ بتائیں کہ اس اولاد کو جس کے پاس کھانے کو نہ ہو اور ایک اولاد جس کے پاس ہر چیز ہے اور وہ اولاد جو مصیبت میں ہے، اس کو دینا زیادہ افضل ہے، ان حالات میں یا اسی کو دینا زیادہ افضل ہے کہ جو امیر ہوں ابو یہ سمجھ رہے ہو ں کہ میں نے اس کو جائیداد کا حصہ زندگی میں ہی دے دیا اور وہ اس لیے کہ ابو نے یہ جو معاملات ہوئے جب میں نے اپنے بھائی کا پیسہ خرچ کر دیا اس سے بغیر پوچھے، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہاں پر جو میرا کام ہے سونے سے زیادہ اچھا کام ہے،  ادھر اس سے زیادہ منافع بخش اور کوئی کاروبار نہیں اور حلال بھی ہے اور وہاں پاکستان میں ان کو فائدہ نہیں ہو رہا، لیکن تھوڑا صبر کرنا پڑے گا،  میرے گھر والوں کے پاس اتنی معلومات ہی نہیں ہے کہ کاروبار کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ میں نے ان کو کہا کہ آپ مجھ پر ایک بار اعتبار اور کر کے دیکھ لو اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ  میرے گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں اور میں نے کاروبار میں نقصان کیا ہے، حالاں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بھی نقصان کیا ہے اور اس سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، میرے ایک نقصان اٹھانے پر انہوں نے مجھ سے سارے رشتے تعلقات توڑ دیے اور اگر ان کو کہا جائے کہ آپ نے بھی تو اپنی زندگی میں نقصان کیا ہے تو وہ مجھے آگے سے کہتے ہیں کہ اس سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں، وہ ہمارا پیسہ تھا ،یہ جو خرچ ہوئے یہ کسی اور کا پیسہ تھا جو آپ نے نقصان کیا اب صرف ایک مسئلہ ہے کہ ابھی میرے پاس اکاؤنٹ میں پیسے ختم ہوگئے ہیں اور ادھار بھی کافی ہے مالک مکان کا ادھار، یاد رہے میں کرائے پر رہ رہا ہوں اور یہ پاکستانی کوئی 35 ہزار روپے بنتے ہیں، اس کے علاوہ جو خرچہ ہے کھانے پینے کا صحت کا،دواؤں کا اور کھانے پینے کا خرچہ اور آنے جانے کا خرچہ بے شمار خرچے ہیں، یہ کوئی ایک لاکھ سے اوپر ہی بنتا ہے پاکستانی، حالاں کہ اتنا میں کر لیتا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے کہ کھانا پینا ہو جاتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب جو ہیں وہ مجھ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایسے ہی بے کار ہوں، حالاں کہ   میرے گھر والوں کو معلوم ہے میری صلاحیتوں کا،کہ میرے اندر صلاحیت کیا ہے اور بہت سے تبلیغی ساتھی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں، اب میں ہر کام کو بہت سوچ سمجھ کر اور بہت احتیاط سے کرتا ہوں،  لیکن میری بات  کو کوئی سننا نہیں چاہتا اور جو میری بہنیں ہیں اور بھائی ہیں، وہ مجھ سے اسی لیے رابطہ نہیں کرتے کہ ان کو بھی مجھ پر اعتبار نہیں ہے، یہ سارا معاملہ میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے

میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں میرے والد صاحب کو میری مدد کرنی چاہیے یا اپنی ان اولاد کی کہ جو پہلے سے خوش ہیں؟

میرا دوسرا سوال کہ کیا ابو کا فرض نہیں بنتا کہ اگر میں مصیبت میں ہوں اور ملک سے باہر ہوں تو کیا ابو کا فرض نہیں بنتا کہ میری ایسے مدد کریں کہ جیسے اپنی ان اولاد کی کر رہے ہیں کہ جو پاکستان میں موجود ہیں؟

میرا تیسرا سوال جو میرے بھائی کے پیسے خرچ ہوئے تھے، اگر بالفرض وہ پیسے ابو نے میرے بھائی کو دے دیے ہیں اور اس کے علاوہ ابو نے مجھے اور پیسے بھی بھیجے مجھے یہ کہہ کر کے میں آخری بار بھیج رہا ہوں اور ان حالات میں کہ میرے پاس جب کھانے کو نہیں ہے تو کیا ان حالات میں امی ابو یا میری فیملی کو میری مدد کرنی چاہیے یا نہیں ؟

میرا چوتھا سوال یہ ہے کہ میری باتوں کا یقین میرے گھر والوں کو کیسے آ جائے کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ کہہ رہا ہوں؟

میرا پانچواں سوال وہ یہ ہے کہ میرے گھر والوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ میں اپنے کاروبار کو آگے بڑھا سکتا ہوں، اس کے لیے کاروباری لوگ جو شعور رکھتے ہیں اور دینی لوگ جو کاروبار کا شعور رکھتے ہیں، میں اور میرے گھر والے ہم سب کو آپس میں بیٹھ کر کیا مشورہ کرنا چاہیے؟ اس مشورے کا مقصد یہ ہوگا کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ بچے جب تک نابالغ ہوں ان کا خرچہ والد کے ذمہ لازم ہے اور جب بالغ ہوجائیں اور کمانے کے قابل ہوجائیں تو ان کا خرچہ والد پر لازم نہیں ہے۔

1، 2  ، 3 ۔ صورتِ مسئولہ میں اگر سائل واقعۃ مالی اعتبار سے پریشان ہے تو سائل كے بھائیوں اور والد کو چاہیے کہ اس کی مدد کریں، لیکن اگر وہ مدد کرتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہے ان کے ذمہ یہ لازم نہیں ہے ۔

4 ، 5 ۔ آپ کوشش کرتے رہیں اور  اللہ تعالی سے مانگتے رہیں اوراپنے معاملات صاف رکھیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ.........ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق ، الفصل الرابع فی نفقة الاولاد جلد ۱ ص : ۵۶۲ ، ۵۶۳  ط : دارالفکر)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب."

(کتاب النکاح ، باب نفقة ذوي الارحام جلد ۵ ص : ۲۲۳ ط : دارالمعرفة ۔بیروت)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره اهـ."

(کتاب الکفالة جلد ۱ ص : ۲۸۸ ط : دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں