بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے رقم بھیجی زمین خریدنے کے لیے اور دادا نے وہ اپنے نام پر کرلی تو وہ کس کی ملکیت شمار ہوگی؟


سوال

میرے والد صاحب نے اپنے دادا کی زندگی میں زمین خریدنے کے لیے رقم بھیجی تھی،  اس وقت دادا ابو نے چار کنال زمین خریدنے کے بعد اپنےنام کروا دی، اب دادا ابو کے فوت ہونے کے بعد میرے والد کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ چار کنال زمین میری ہے اس کے علاوہ باقی جائیداد میں وراثت جاری کریں۔ اور اس معاملے کے گواہ بھی موجود ہیں کہ رقم میرے والد صاحب نے بھیجی تھی زمین خریدنے کے لِیے، تو وہ زمین کس کی شمار ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر دادا کے خریدنے کے بعد والد نے ان کو مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ کرنے کی اجازت دی تو وہ زمین دادا  کی ملکیت ہے، اور ان کے انتقال کے بعد وہ زمین وراثت میں تقسیم ہوگی، لیکن اگر وہ زمین دادا نے  خرید کر محض اپنے نام کی ہے، مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ نہیں ملا، بل کہ اختیارات والد کے پاس ہی تھے،  تو وہ زمین والد ہی کی ملکیت ہوگی اور داد ا ان کی طرف سے محض وکیل شمار ہوگا ، لہذا دادا کے انتقال کے بعد وہ  زمین ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(كتاب الهبة، الباب الثاني فیما یجوز من الھبة وما لایجوز، 4/ 378،ط: رشیدیة)

وفیہ ایضا:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الهبة، الباب الثاني في مايجوز من الهبة  ومالا يجوز 4/ 377، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، 5/ 690، ط: سعید)

الفتاوى التاتارخانیة "میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، 14/ 431، ط: زکریا دیوبند دهلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں