بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے بیٹے کے نکاح کا مہر اپنے مکان کا ایک کمرہ مقرر کیا


سوال

 میری شادی 2014 میں ہوئی اور دونوں خاندانوں کی رضامندی سے ہوئی ، دونوں خاندانوں کے بزرگوں میں کچھ تنازعات تھے جن کی بنا پر 2016 میں رات کے 2 بجے مجھے میری بیوی اور 3 ماہ کی بچی کے ساتھ میری والدہ اور بہنوں نے گھر سے نکال دیا ،، جب مجھے گھر سے نکالا گیا تو میری بیگم کا جہیز کا تمام سامان اسی گھر میں اس کمرے میں پڑا ہوا تھا  جو میرے والدین نے اپنی باہمی رضا مندی کے ساتھ اس گھر میں سے ایک کمرہ حدود اربعہ کے ساتھ اپنی بہو کے نکاح نامے میں بطورِ حق مہر میں لکھ دیا تھا  ،ہم نے اس کمرے کو لاک کر دیا تھا اور آج تک لاک ہے، میرے والد مرحوم نے معاملات کو درست کرنے کی بے حد کوشش کی اور 2019 میں والد محترم کا انتقال ہوگیا، والدہ اور والد مرحوم کی پراپرٹی کے تمام ڈاکومنٹس میری والدہ بہنوں اور بہنوئیوں نے ضبط کیے ہوئے ہیں ، وہ اب چاہتے ہیں کہ جو کمرہ میرے والدین نے اپنی باہمی رضامندی سے اپنی بہو کے نکاح میں بطورِ حق مہر میں لکھا  ہے وہاں سے ہم اپنا سارا سامان اٹھا لیں ،کمرے کا قبضہ چھوڑ دیں تاکہ وہ اس کو یا تو سیل کروا دیں یا اپنے نام پر ٹرانسفر کروا لیں۔ ان 7 سالوں میں مجھ پر کئی  جھوٹے مقدمات تھانوں میں درج کروائےگئے ،، بہت سی جائیداد انہوں نے دو نمبر طریقے سے بیچ ڈالی،میری والدہ کی ایک ہی ضد ہےکہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے نہیں تو وراثت کو بھول جا، میرا رب گواہ ہے مجھے کچھ نہیں چاہیے وراثت میں سے ،میرے والد مرحوم 16 گریڈ سے ریٹائر ہوئے ،ان کی پینشن میری والدہ اور میری لالچی بہنیں اور بہنوئی  اور ان کے بچے 2016 سے کھا رہے ہیں، میں اس کمرے کا قبضہ اس وجہ سے نہیں چھوڑ رہا  کہ جن مخالف قوتوں نے ان کے اکلوتے بیٹے اور اس کے بیوی بچی کو اس گھر میں نہیں رہنے دیا ،وہ میرا قبضہ چھوڑنے کے بعد کہیں  میری والدہ کو بھی اس گھر سے نہ نکال دیں یا اپنے نام کروا لیں یا سیل کروا دیں یہ میرے کچھ خدشات ہیں۔سوال یہ ہے کہ میرے والدین نے اپنی باہمی رضامندی سے اپنی بہو کے نام پر جو کمرہ کیا شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ وارث ہونے کے ناطے اور بیوی کے نکاح نامے جو کمرہ نام کیا گیا اس کے ناطے اور میری ماں کے حوالے سے جو خدشات ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا چاہیے ؟ برائے مہربانی اس معاملے میں شریعت کے مطابق مجھے حل بتائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد نے اپنی مرضی سے   اپنے مکان کا ایک کمرہ سائل  کے بیوی کے حق مہر میں لکھوایا تھا اور    نکاح کے بعد    وہ کمرہ سائل کی بیوی  کو دیدیا  تھا تو    سائل کی بیوی اس کمرہ کی مالک  بن گئی تھی   ،اب سائل کی  والدہ ،بہنوں اور بہنوئیوں کے لیے  اس  کمرہ کا قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کرنا اور اس کے لئے کسی قسم کا دباؤ ڈالنا شرعا جائز نہیں ہے ۔

باقی  سائل کے والد مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ میں تمام ورثاء کا حق ہے ،سائل کی والدہ اور بہنوں کا سائل کو  والد کی میراث سے محروم  رکھنا  اور خود تمام جائیداد پر قبضہ کرنا شرعا ناجائز اور حرام ہے ،والدہ اور بہنوں پر لازم ہے کہ وہ  سائل کے والد  کی میراث میں سے سائل کا حق و حصہ دیں ،اگر دنیا میں نہیں دیں گے تو آخرت میں دینا ہوگا اور آخرت میں دینا بہت مشکل ہے ،باقی اگر سائل اپنے حق کے  لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

"{ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ }" [النساء:14]

ترجمہ:۔’’جو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لئے ذلت آمیز عذاب ہو گا‘‘۔

حدیث میں ہے :

"من قطع میراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."

(مشکوۃ ، ج:۱، ص:۲۶۶، ط: قدیمی)

ترجمہ :’’جو شخص اپنے وارث کو میراث سے محروم کر ے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کی وارثت سے محروم رکھے گا۔‘‘

وفي الفتاوى الهندية :

"وإذا تزوجها على هذا العبد وهو ملك الغير أو على هذه الدار وهي ملك الغير فالنكاح جائز والتسمية صحيحة فبعد ذلك ينظر إن أجاز صاحب الدار وصاحب العبد ذلك فلها عين المسمى."

(كتاب النكاح,الباب السابع في المهر  ,الفصل الأول في بيان مقدار المهر وما يصلح مهرا وما لا يصلح1/ 303ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں