بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے بیٹے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھول کر اس میں رقم رکھی ہو تو بیٹے پر قربانی کا حکم


سوال

ایک آدمی ہے ،اس نے اپنے بیٹے کا بینک اکاؤنٹ کھولا اور اس میں بیٹے کے لیے رقم رکھی ،جونصاب تک پہنچتی ہے اور بیٹا بھی بالغ ہے ،لیکن اس بیٹے کو اس میں سے استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے ،کیا اس پر قربانی ہے ؟

وضاحت :جوائنٹ اکاؤنٹ  ہے ،چیک پر باپ اور بیٹے دونوں کے دستخط ہوتے ہیں ،بیٹا باپ کی اجازت اور دستخط کے بغیر اس اکاؤنٹ  سے رقم نہیں نکال  سکتا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں چوں کہ  مذکورہ شخص نے اپنے بیٹے  کو ابھی تک بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم اپنے بیٹے کے قبضہ اور اختیار میں نہیں دی ہے، اس لیے بیٹا اس رقم کا مالک نہیں ہے ،اگر بیٹے کے پاس اس کے علاوہ مزید رقم یا ضرورت اور استعمال سے زائد نصاب کے بقدر سامان  نہیں ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں  ہے۔ 

واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(فتجب) التضحية...(على حر مسلم مقيم) بمصر أو قرية أو بادية عيني، فلا تجب على حاج مسافر؛ فأما أهل مكة فتلزمهم وإن حجوا، وقيل لا تلزم المحرم سراج (موسر) يسار الفطرة (عن نفسه لا عن طفله) على الظاهر، بخلاف الفطرة (شاة) بالرفع بدل من ضمير تجب أو فاعله (أو سبع بدنة) هي الإبل والبقر... (فجر) نصب على الظرفية (يوم النحر إلى آخر أيامه) وهي ثلاثة أفضلها أولها."

 ( رد المحتار، كتاب الأضحية 6/ 313 ط: سعيد)

وفیه أيضا :

"قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة."

(كتاب الهبة، 5/ 689 ط: سعيد) 

وفي الفتاوى الهندية :

" ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة."

(كتاب الهبة، الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، 4/ 374 ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں