بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے بیٹی کوگاڑی خریدنے کے لیے جو رقم دی تھی اس میں بیٹا میراث کا مطالبہ کر سکتا ہے


سوال

میرے والد صاحب نے مجھے گاڑی خریدنے کا کہا مگر میرے پاس پیسے کم تھے گاڑی خریدنے کے لیے آٹھ   لاکھروپے درکار تھے جبکہ میرے پاس صرف پانچ لاکھ روپے تھے تو والد صاحب نے تین لاکھ روپے اپنی طرف سے دیے اور کہا کہ ان پیسوں کو اپنے پیسوں کے ساتھ ملا کر گاڑی خرید لو اور والد صاحب نے کچھ نہیں کہا کہ یہ قرض ہیں یاآپ کے لیے ہدیہ ہیںاس طرح کچھ نہیں کہا ۔

باقی والد صاحب کی خدمت بھی میں خود کرتی تھی، چونکہ میرا بھائی سعودی عرب میں ہوتا تھا پوری فیملی بھی ان کے پاس  وہی پہ ہوتی تھی والد صاحب کا انتقال 2015 میں ہوا تدفین و تکفین کا سارا انتظام میں نے خود کر لیا اب 2021 میں میرا بھائی پاکستان آیا اور انہوں نے والد صاحب کی جائیداد کی تقسیم کے بارے میں بات کی اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ آپ کو جو والد صاحب نے تین لاکھ روپے دیے تھے اس کو بھی میراث میں تقسیم کرنا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا بھائی کا یہ مطالبہ درست ہے جبکہ والد صاحب نے دیتے وقت کچھ نہیں کہا تھا کہ یہ قرض ہے اگر ان کا یہ مطالبہ درست ہے تو چونکہ گاڑی تو 2008 میں خریدی گئی اور بھائی اور انکے بیٹے بھی چلاتے رہے تو گاڑی کی قیمت کم ہوگئی ہے تو وہی تین لاکھ ادا کرنے ہوں گے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے والد نے گاڑی خریدنے کے لیے تین لاکھ روپے دیتے وقت اگر اس بات کی صراحت نہیں کی تھی کہ یہ رقم بطور  قرض  دے رہے ہیں تو یہ رقم والد کی طرف سے سائلہ کو ہدیہ  تھی اب والد کے انتقال کے بعد سائلہ کے بھائی کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ سائلہ سے اس رقم کا مطالبہ کرے ۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"الهبة هي تمليك مال لآخر بلا عوض."(المادة 833) 

"الهدية هي المال الذي يعطى لأحد أو يرسل إليه إكراما له."(المادة 834) 

(‌‌الكتاب السابع: في الهبة، ‌‌المقدمة في بيان الإصطلاحات الفقهية المتعلقة بالهبة،ص:161،ط:نور محمد)

العقود الدریۃ فی تنقيح الفتاوى الحامدیۃمیں ہے: 

"«المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره اهـ.»۔"

 (كتاب الكفالة1/ 288،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں