میرے والد صاحب کے 2 لاکھ روپے میرے پاس پڑے تھے، انہوں نے مرنے سے پہلے مجھے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد ان کو صدقہ کر دینا، پھر میرے والد صاحب فوت ہو گئے، اب میں اس رقم کو صدقہ کر دوں یا وراثت میں تقسیم کر دوں؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کا کل ترکہ اگر دو لاکھ ہی ہو تو اس دو لاکھ کا ایک تہائی یعنی چھیاسٹھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ عشاریہ چھ چھ روپے صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور بقیہ تمام رقم مرحوم کے شرعی ورثاء میں حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرنا ضروری ہوگا، کل دو لاکھ صدقہ کرنے کی شرعاً آپ کو اجازت نہ ہوگی، البتہ اگر ان دو لاکھ کے علاوہ بھی ترکہ ہو اور یہ دو لاکھ کل ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم بنتے ہوں تو مذکورہ دو لاکھ صدقہ کرنے لازم ہوں گے، البتہ اگر دو لاکھ روپے کل ترکہ کا ایک تہائی سے زیادہ بنتے ہوں تو ایسی صورت میں صرف ایک تہائی رقم صدقہ کی جائے گی، جب کہ بقیہ رقم ورثاء میں تقسیم شرعی کے مطابق تقسیم کی جائے گی ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200940
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن