بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والد نے جو چیز زندگی میں اپنے بیٹوں کو دے دی ہو اس میں بیٹیوں کا حصہ


سوال

زید کی اولاد میں تین بیٹے اور چھ  بیٹیاں ہیں، ان کی   ملکیتی پراپرٹی تین مختلف مقامات میں واقع ہیں، ان میں سے شہر والی پراپرٹی اس نے اپنی حیات ہی میں اپنے تین بیٹوں میں تقسیم کردی  اور بیٹیوں کو محروم رکھا، بعد از وفات  بیٹیوں کا شہر والی پراپرٹی میں بھی وراثت کا دعویٰ ہے، آیا وہ اس شہر والی پراپرٹی میں بھی  بعد از وفات والد کے  حصہ دار ہیں یا نہیں؟

نوٹ: ان بیٹوں کے پاس تحریر کوئی دستاویز نہیں، البتہ گواہان موجود ہیں، جو چیزیں بیٹوں کو دی ہیں وہ دیواریں لگا کر الگ بھی کر لی گئیں اور ایک بیٹے نے اپنے حصے کو فروخت بھی کر دیا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کو چاہیے تھا کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم میں عدل و انصاف اور برابری کرتا، یعنی جس طرح بیٹوں کو دیا اسی طرح بیٹیوں کو بھی دے دیتا، لیکن اگر زید نے ایسا نہیں کیا اور صرف بیٹوں کو شہر والی پراپرٹی مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دے دی تھی تو ایسی صورت میں جو جائیداد بیٹوں کو دے دی وہ اس کے مالک بن گئے، اب شہر والی پراپرٹی میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں، چوں کہ والد نے تقسیم میں نا انصافی کی ہے جس پر آخرت میں مؤاخذہ ہو سکتا ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ بیٹے اپنے والد کو مؤاخذہ سے بچانے کے لیے اس میں سے کچھ حصہ اپنی بہنوں کو دے کر ان کو راضی کر لیں؛ تا کہ والد مرحوم پر وبال نہ ہو، تاہم اگر بیٹے ایسا نہ کریں تو ان کو مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

صحيح بخاری میں ہے:

"حدثنا حامد بن عمر، حدثنا أبو عوانة، عن حصين، عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته."

(كتاب الهبة ، جلد : 3 ، صفحه : 157 ، طبع : دار طوق النجاة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ‌وهب ‌رجل ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره."

(كتاب الهبة، الباب السادس ، جلد : 4 ،  صفحه : 391 ،  طبع : دارالفكر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لو قال: نحلتك داري، أو أعطيتك، أو وهبت منك، كانت هبة، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الهبة ، الباب الاول ، جلد : 4 ، صفحه : 375 ، طبع : دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601102339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں