بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد مرحوم کی رقم مسجد میں خرچ کرنا


سوال

والد صاحب نے انتقال سے پہلے کئی بار یہ بات کہی  کہ میری جیب میں جو رقم ہے اسے آپ میری وفات کے بعد خرچ کرسکتی ہیں اور  چاہیں تو میرے  لیے ایصالِ ثواب کے  لیے لگا سکتی ہیں،  اب ان کا انتقال ہوئے مہینہ ہوگیا اور یہ بات انہوں نے  میرے علاوہ کسی سے نہیں کی،  تو وہ پیسے میں  نے مسجد کے کام کے  لیے دے دیے، وہ  رقم 40 ہزار تھی،   کیا اس بارے میں سب کو بتانا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت نے اگر اپنی زندگی میں کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو  اس میت کے ترکہ (میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی کے بعد، ترکے) کے ایک تہائی حصے میں اس وصیت کو نافذ کردیا جائے گا۔  اور اگر وصیت ایک تہائی حصے سے زائد ہو تو  تمام عاقل بالغ ورثاء کی اجازت کے بغیر اسے نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایک تہائی حصے سے زائد حصے کی وصیت میں عاقل بالغ ورثہ نے اجازت دی تو عاقل بالغ ورثہ کے حق کے بقدر اسے نافذ کیا جائے گا، ورنہ ایک تہائی حصے سے زائد حصے کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اور اگر میت نے اپنی زندگی میں کسی وارث کے لیے وصیت کی ہو تو ایسی وصیت دیگر  ورثہ کی اجازت پر موقوف ہوگی۔ اگر دیگر ورثہ سب بالغ ہوں اور انہوں نے اجازت دے دی تو اسے نافذ کیا جائے گا، یا بعض بالغ ہوں، بعض نابالغ اور بالغ اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر وصیت نافذ ہوگی، ورنہ اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

درج بالا تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں والد مرحوم کی مذکورہ رقم اگر ایک تہائی ترکہ کے اندر اندر بنتی ہے تو مذکورہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست ہوا، اور اگر مذکورہ رقم ایک تہائی ترکہ سے زائد ہے تو ایسی صورت میں بقیہ ورثاء کو بتا کر اس بات پر راضی کرنا ضروری ہوگا کہ وہ رقم مسجد میں خرچ کردی گئی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)".

(ج:6، ص:650، ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

" (إلا بإجازة ورثته)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة."

(ج:6، ص:650، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں