بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے ساتھ رہنے والے بیٹے کے کاروبار میں باقی ورثاء کا حصہ۔


سوال

ایک شخص  کا انتقال ہوا ہے،ورثاء میں بیوہ، پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں،والدکے انتقال کو ڈھائی سال ہوچکے ہیں، لیکن اخراجات سابقہ طریقے پر چل رہے ہیں، والد نے بڑے بیٹے کوکسی کمپنی میں منشی لگایا تھا اور دوسرے اور تیسرے بیٹے کو کاروبار کے لیے کچھ رقم دی تھی، کچھ عرصہ بعد منشی بھائی کمپنی اور والد کے مشورے سے بیرون ملک چلاگیا، اور وہاں کچھ عرصہ منشی رہنے کے بعد اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا، اور اس  کاروبار میں دیگر بھائیوں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا،گھر کاخرچہ اس منشی بھائی  اور باقی دو بھائی جن کو والد نے کاروبار کے لیے رقم دی تھی  ان کی طرف سے ہوتا تھا ،اور کوئی حساب کتاب نہیں ہواتھا،اس دوران منشی بھائی نے والدکی جائیداد میں کچھ تعمیرات کیں، اب والد کے انتقال کے بعد وہ دعوی کرتا ہے یہ تعمیرات اور باہر ملک میں کمایا ہوا سرمایہ میرا ہے، اس میں کسی اور کا حق نہیں ہے،اب پوچھنا یہ ہےکہ والد کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟ اور منشی بیٹے کے کاروبار اور ان تعمیرات میں باقی ورثاء کا حصہ ہوگا یا نہیں؟

وضاحت: منشی بیٹے نے کا روبار اپنے لیے شروع کیا تھا اور تعمیرات والد کی زندگی میں والد کی  جائیداد میں بغیر کسی معاہدے کے کی تھیں،اور بھائیوں نے ہاتھ اس طرح بٹایا کہ جب منشی بھائی پاکستان آتا تھا تو کوئی اور بھائی وہاں جاکر کام سنبھالتا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ منشی بیٹے نے باہر ملک میں اپنےلیے اپنے  سرمایہ سے تجارت شروع کی تھی  تو  یہ کاروبار، اس سے حاصل ہونے والا سرمایہ  اور اس سرمایہ سے بنائی جانے والی جائیدادکا  وہی مالک  ہوگا، باقی ورثاء کا اس میں حصہ نہیں ہوگا، البتہ اس نے والدکی زندگی میں مشترکہ زمین میں جو تعمیرات کی ہیں  وہ والد کی ملکیت شمار ہوں گے اور تمام ورثاء میں ان کےشرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

 والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ میں سب سے پہلے اس کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر اس پر کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد،اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت  کی ہوتو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے  میں اسے نافذکرنے کےبعد  باقی تمام جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے کل  104 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ  کو 13 حصے ، ہربیٹے کو 14حصے،  ہربیٹی کو 7 حصے دیے جائیں گے۔صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:104/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
131414141414777

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو12.50 روپے، ہر بیٹے کو13.461 روپے اور ہر بیٹی کو6.730 روپے ملیں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌حكم ‌الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة "

(‌‌فصل فی بيان حكم الملك ج:6، ص:263، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له."

(مسائل شتی،ج:6،ص:747،ط:سعید)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات،ج:2،ص:226،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں