بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے کی گئی قربانی کے گوشت کے خود استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے اگر بندہ  اپنے مرحوم والد کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو  کیا اس جانور کا گوشت کھانا گھر والوں پر جائز ہے یا نہیں؟میں اپنے لیے قربانی کرتا ہوں اور اپنے والد محترم کے لیے بھی قربانی کرتا ہوں مجھے کسی شخص نے کہا جو قربانی اپنے والد مرحوم کے لیےکرتے ہو اس کا گوشت کھانا حرام ہے ،کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  آپ  اپنے والد کی وصیت کی وجہ سے قربانی کر رہے ہوں تو اس صورت میں اس کے حصہ کا سارا گوشت صدقہ کرنا واجب ہوگا، اور  اگر   وصیت کے بغیر محض ثواب کی نیت سے مرحوم والد کی طرف سے قربانی کی جائے تو اس کا سارا گوشت صدقہ کرنا واجب نہیں،  بلکہ مرحوم کی طرف سے  قربانی کرنے والے کو اختیار  ہوگا، چاہے تو سب صدقہ کردے، چاہے تو سب اپنے لئے رکھ لے، اور چاہے تو تین حصہ کرکے ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کردے، ایک حصہ خاندان والوں میں اور ایک حصہ اپنے لئے رکھ لے،جس نے آپ کو یہ کہا کہ  ایصالِ ثواب کے لیے کی گئی قربانی کا گوشت استعمال کرنا آپ کے لیے حرام ہے یہ بات درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية."

(كتاب الأضحية،326/6،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قوله وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه."

(كتاب الأضحية،فروع لون الأضحية الخ،335/6،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و لو تصدق بالكل جاز، ولو حبس الكل لنفسه جاز، وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام إلا أن إطعامها والتصدق بها أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع عليهم به، كذا في البدائع."

(کتاب الأضحية،الباب السادس  في بيان ما يستحب في الأضحية والانتفاع بها،300/5، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں