بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کو ماموں، پھوپھا کو والد کہنے، پردہ کے احکام اور پرورش کاحق


سوال

ہمارے والد نے ایک بیٹی اپنی سگی بہن کو دی تھی، وہ بیٹی پھوپھی کے ہاں بڑی ہوئی، اب اس کا نکاح بھی ہوا ،نکاح میں ہمارے والد کا نام ہی لیا گیا ،لیکن کاغذات پھوپھا کے نام پر ہیں، کاغذات میں پھوپھا والد لکھوایاگیاہے توہماری بہن کے لیےپھوپھا اور ان کے بیٹےمحرم تھے یانامحرم ؟اوراگر وہ نامحرم تھے تو اس صورت میں یہ گناہ کس پر ہوگا؟ہماری بہن بڑی ہونے تک وہاں ان کے ہاں رہی ،ہمارے والد نےاپنی بیٹی کو واپس بھی مانگا ،لیکن پھوپھانے واپس نہیں کیاتو کیاہمارے والد واپس لینے کے حق دار تھے؟اور اس مذکورہ بیٹی نےوالد کو کبھی باپ نہیں بولا، بلکہ ماموں بولتی تھی،اور باپ کی کوئی خدمت بھی نہیں کی،پرورش کاحق پھوپھا کو حاصل تھا یا ہمارے والد کو ؟

جواب

واضح رہے  کہ ہر  شخص کی نسبت اس کے حقیقی والد  کی طرف کرنا لازمی ہے، اور کاغذات میں بھی والد کا نام ہی  لکھا جائے گا،اگر پرورش کرنے والے کی خواہش ہو تو بطورِ سرپرست کے نام لکھوا سکتا ہے، البتہ ولدیت کے خانے میں  کسی اور کا نام لکھنا درست نہیں،  نیز  نو سال تک لڑکی کی پرورش کا حق اس کی ماں کو حاصل ہے، اس کے بعد یہ تربیت کا حق والد کی طرف منتقل ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں   اگر مدت رضاعت  ( ڈھائی سال) کے اندربچی نے  پھوپھی کا دودھ نہیں پیا تھا توبچی  کے لیے اس کا پھوپھا اور ان کےبیٹے نامحرم ہیں ، لہذا اس کے لیے ان سے پردہ کرنا ضروری ہے،جب والد کے مانگنے پر  ان کے شرعی حق ہونے کے باوجود ، بچی   انہیں واپس نہیں دی گئی   تو  پردہ وغیرہ کے سلسلے میں شرعی احکام پر عمل نہ کرنے  کے باعث  پھوپھا اور پھوپھی گناہ گار ہیں، سائل کی بہن اپنے حقیقی والد کو ہی والد کہے، تاہم اگر اپنے پھوپھا کو بطورِ محبت والد یا ابو کہے تو اس کی گنجائش ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي ٱلسَّبِيلَ  ٱدْعُوهُمْ لِأٓبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ "۔(سورۃ الاحزاب۔آیۃ: 4،5)

ترجمہ:"  اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا،یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے، اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے۔ (از بيان القرآن)

ٹھیک انصاف کی بات یہ ہے کہ ہر شخص کی نسبت اس کے حقیقی باپ کی طرف کی جائے کسی نے "لے پالک"بنالیاتو وہ واقعی باپ نہیں بن گیا ،یوں شفقت و محبت سے کوئی کسی کو مجازاً بیٹا یا باپ کہہ کر پکارلے وہ دوسری بات ہے۔"(تفسیرعثمانی )

مشكوة المصابيح میں ہے:

"وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌ادعى ‌إلى ‌غير ‌أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام."

(باب اللعان، 287/2، ط: قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت ... فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم ......ثم تسلم إلى الأب وإنما كان كذلك؛ لأنها وإن كانت تحتاج بعد الاستغناء إلى تعلم آداب النساء لكن في تأديبها استخدامها وولاية الاستخدام غير ثابتة لغير الأمهات من الأخوات والخالات والعمات فتسلمها إلى الأب احترازا عن الوقوع في المعصية."

(کتاب الحضانة، 459،456/3، ط: المکتبة الوحیدیة، بشاور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں