بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کو بتائے بغیر نکاح كرنا


سوال

والد صاحب اگر اپنے بچے کی شادی نہ کر رہے ہوں، چاہے مسئلہ مکان کا ہو یا مشترکہ کاروبار کا ہو تو کیا بیٹا والدین کو بتائے بغیر اپنی مرضی سے چھپ کر شادی کر سکتا ہے؟

جواب

اولاد کے شرعی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ  اس کے بالغ ہوجانے کے بعد مناسب جوڑ ملتے ہی والدین اس کی  شادی کردیں، بلاوجہ تاخیر ہرگز نہ کریں، نکاح میں  تاخیر کی وجہ سے  اولاد سے جو گناہ سرزد ہوں گے اس کا گناہ والدین کے بھی  سر پر بھی ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کو چاہیے  کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی میں رکاوٹ بننے کے بجائے شادی کرانے میں اپنا کردار ادا کریں، تاہم اگر بیٹے نے دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں  کی موجودگی میں کسی خاتون سے باقاعدہ ایجاب و قبول کرکے نکاح کرلیتا ہے تو اس کا نکاح شرعًا منعقد ہوجائے گا، تاہم مذکورہ شخص کو اپنے والد کو راضی کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا چاہیے، تاکہ نکاح کے موقع پر والد کی دعائیں بھی ساتھ ہوں۔

سنن الترمذيمیں ہے:

’’171 - حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا.‘‘

( أبواب الصلاة، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، ١ / ٢٣٨، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

’’(والأيم) : بتشديد الياء المكسورة أي: المرأة العزبة ولو بكرا (إذا وجدت) : أنت أو وجدت هي (لها كفؤا) : قال الطيبي: الأيم من لا زوج له رجلا كان أو امرأة، ثيبا كان أو بكرا، والكفؤ: المثل. وفي النكاح أن يكون الرجل مثل المرأة في الإسلام والحرية والصلاح والنسب وحسن الكسب والعمل. (رواه الترمذي) . بسند رجاله ثقات قاله ميرك.‘‘

( كتاب الصلاة، باب تعجيل الصلوات، الفصل الثاني، ٢ / ٥٣٣، ط: دار الفكر)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

’’8299 - أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنا أحمد بن عبيد، نا إسحاق بن الحسن الحربي، نا مسلم بن إبراهيم، نا شداد بن سعيد عن الجريري، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، وابن عباس  - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه».‘‘

( حقوق الأولاد و الأهلين، ١١ / ١٣٧، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض )

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

’’(فليزوجه) وفي معناه التسري (إن بلغ) أي: وهو فقير (ولم يزوجه) أي: الأب وهو قادر (فأصاب) أي: الولد (إثما) أي: من الزنا ومقدماته (فإنما إثمه على أبيه) أي: جزاء الإثم عليه لتقصيره وهو محمول على الزجر والتهديد للمبالغة والتأكيد، قال الطيبي - رحمه الله -: أي جزاء الإثم عليه حقيقية ودل هنا الحصر على أن لا إثم على الولد مبالغة لأنه لم يتسبب لما يتفادى ولده من أصابه الإثم.‘‘

( كتاب النكاح، باب الولي في النكاح و استئذان  المرأة، ٥ / ٢٠٦٤، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں