بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں والد کو بیٹی سے نہ ملنے دینے کا حکم


سوال

میری شادی تقریباً ساڑھے تین سال رہی ،اس عرصہ میں تین سے چار مرتبہ میری بیگم نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا ،لیکن میں نے ان سنی کردی ،پھر جب بات ہاتھ اٹھانے تک پہنچ گئی ،تو میں برداشت نہیں کر پایا اور کچھ عرصہ سوچ کر ایک طلاق دے دی ،پھر بیوی کے والدین کے اصرار پر  چند  شرائط کے ساتھ رجوع نامہ بھیج دیا ،بیگم نے پڑھا اور علیحدگی کی خواہش ظاہر کی ،اور ان شرائط اور معافی نامہ پر دستخط نہیں کیا ،جس پر میں نے بھی آمادگی ظاہر کر دی کہ طلاق برقرار رہے  ،پھر میں  عدت کا خرچہ  ہر ماہ پانچ ہزار بھی دیتا رہا ،اور اپنی بچی کاہر ماہ دس ہزار  خرچہ بھی دیتا آرہا ہوں ،حق المہر میں پہلے ہی  ادا کر چکا ہوں ،میری والدہ نے کچھ زیور طلائی میری شادی کے لیے بنائے تھے وہ مجھے دئے تھے ،شادی کے بعد میری بیوی کبھی میری اجازت سے اور  کبھی بلا اجازت  اس کو پہنتی تھی ،میں نے یہ زیور اپنی بیگم کو کبھی مالک بنا کر نہیں دیا تھا ،بلکہ ایک سفر کے موقع پر اصرار کیا کہ یہ زیور بھی ساتھ لیتے ہیں ،میں نے منع کیا تو وہ اپنا زیور ہی لے کر گئیں ،کچھ بدمزگی کے دوران کچھ زیور غائب بھی ہو گیا تھا ،تو انہوں نے میرے مطالبہ پر  مجھے دیا ،اب علیحدگی کے بعد میں تمام تر جہیز کا سامان ان کو دینے کے لیے تیار ہوں ،لیکن وہ مجھ سے یہ زیور بھی مانگ رہے ہیں ،اور میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ یہ زیور تو میرا ہی ہے کیوں کہ میں نے اس کو کبھی مالک بنا کر نہیں دیا ہے ،بلکہ جو غائب ہوا ہے ،اس کے عوض اتنا ہی مجھے واپس کریں ۔

اب سوال یہ ہے کہ :

1)وہ اس زیور کی حق دار ہے یا نہیں ؟میں نے  اس زیور کا مالک اس کو نہیں بنایا ہے ۔

2)بچی کا خرچہ میں ادا کر رہا ہوں ،یہ کس کے ذمہ ہے ،اور کب تک ہے ،کیا یہ بچی کو ملنے دینے کی وجہ سے مجھ پر سے ساقط ہوگا ۔

3)بچی سے نہ  ملنے دینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً یہ زیور سائل کی والدہ نے سائل کو ہی مالک بنا کر دیا تھا ،اور سائل نے  اپنی بیوی کو اس زیور کا مالک نہیں بنایا تھا ،بلکہ صرف پہننے کے لیے دیا تھا تو صرف پہننے کے لیے دینے کی وجہ سے مطلقہ بیوی اس کی مالک نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہ زیور  بدستور  سائل کی ملکیت ہے ،لہذا مطلقہ کا اس زیور میں کوئی حق اورحصہ نہیں  ہے،اب زیور کے ضائع ہونے کی  صورت میں  حکم یہ ہے کہ اگر وہ زیور  مطلقہ کے قصدورادہ کے بغیرہلاک و غائب  ہوا ہے تو سائل مطلقہ سے اس کے مطالبہ کا حق نہیں رکھتا  ،اور اگر مطلقہ نے  قصداً ہلاک یا غائب کیا ہے تو سائل کو اس کے مطالبہ کا حق حاصل  ہے۔ 

2) نو سال کی عمر تک لڑکی کی پرورش کا حق  والدہ کو ہے بشرطیکہ اس دوران وہ بچی کے غیر محرم سے نکاح نہ کرے،اس کے بعد شادی تک  لڑکی کی تعلیم و تربیت کا حق باپ کو ہوگا،نیز اس دوران  بچی کا نفقہ باپ پر ہی لازم ہے،  چاہے مطلقہ  باپ کو بچی سے ملنے دے  یا  نہ دے ۔

3)باپ اپنی بچی سےملاقات کا حق دارہے ،مطلقہ کے لیے باپ کو بچی  کی ملاقات سے روکنا شرعاً  جائز نہیں ،بلکہ ظلم ہے،لہذا دونوں خاندان کی باہمی رضامندی سے باپ کو بچی سے ملاقات کرنے کا وقت اور طریقہ کار طے کر کے اس کے مطابق عمل کریں  ۔

الدر المختار میں ہے:

"(و لا تضمن بالهلاك من غير تعد)."

(کتاب العاریۃ ،ج:5،ص:679،ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

و أقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى"

(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج:3،ص:566،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق ،باب فی الحضانہ ،ج:1،ص:543،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں