بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کو اپنے بھائیوں پر زیادہ احسانات کرنے منع کرنا


سوال

 میرے والد صاحب بہت اچھے اخلاق والے ہیں اپنوں کے ساتھ تو چھوڑیں وہ غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں ہم چھ بہنیں ہیں اور بھائی چھوٹے ہیں ہمارے آگے پیچھے والد کے سوا کوئی نہیں لیکن ہمارے والد اپنے بھائیوں کے ساتھ حد درجہ کی صلہ رحمی کرتے ہیں اپنے ایک بھائی کو جو کہ شادی شدہ ہے بال بچوں والا ہے روزانہ ایک ہزار روپے دیتے ہیں اور ہمارا اپنا گھر نہیں اس کے باوجود بھی ابو نے ان کے گھر پر بارہ لاکھ روپے لگائے اور اس کی مرمت کی اور آپ کے علم میں اضافہ کرتی چلوں کہ ہم 16سال سے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور ابو نے اس گھر میں اور والدین کی وراثت میں جو حصہ بنتا تھا اس کو بھی اپنے بھائیوں پر وقف کردیا اور میرے والد کسی مالدار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی میں قرض کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں(اور ابھی بھی 80لاکھ کے قرض دار ہیں) اور ان کے بھائیوں نے کبھی میرے والد کے فضل کا اعتراف نہیں کیا بلکہ کہتے ہیں کہ یہ جو آپ ہزار روپے دیتے ہیں اس پر ہمارا گزارا نہیں ہوتا اب آپ ہی بتائیں کہ میرے والد کا اپنے ان بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی میں حد سے تجاوز کرنا (جو کہ خود کما سکتے ہیں )جس کی وجہ سے آئے دن میرے والدین کا آپس میں نزاع پیدا ہوتا ہے،  کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

آپ کے والد جواپبے بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی میں ان کے ساتھ تعاون کر تے ہیں یہ ان کی اپنی مرضی ہے،اور شریعت ان کو اس سے منع بھی نہیں کرتی ،البتہ بھائیوں کے علاوہ  بال بچوں،اہل وعیال کا نان نفقہ  ان پر لازم ہے،اگر بھائیوں کے ساتھ زیادہ تعاون کرنے کی وجہ سے اپنے گھر والوں کا نان نفقہ مکمل نہیں ہورہا،اس میں کوتاہی ہورہی ہے تو سب سے پہلے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کو پورا کرنا لازم ہے، اس کے بعد پھر بھائی وغیرہ کا تعاون کرے۔

باقی آپ کے والد جو اپنے بھائیوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اس کے اجر کی امیدصرف  اللہ تعالیٰ سے رکھنی چاہیے،کسی اور سے کوئی غرض وابستہ نہیں ہونی چاہیے، اگر آپ کے چاچا اپنے بھائی(آپ کے والد)کے احسانات کا اعتراف نہیں کرتے تو اس کی فکر نہ کریں اور نہ  ہی اس بنیاد پر احسانات کرنے سے ان کو منع کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،ج1،ص544،ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر فی النفقات،ج1،ص544،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں