بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں بیٹے کا ان کی جائیداد سے بہنوں کو حصہ دینا


سوال

میں بچپن ہی سے اپنے والد کی دکان میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا مگر شادی کے بعد یا کچھ عرصہ پہلے میں نے دوکان چھوڑ کر ایک کمپنی میں ملازمت اختیار  کرلی تھی ۔اب میں واپس اپنے والد کے ساتھ ان کی دوکان میں کام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ نوکری میں اب گذارا نہیں ہوتا،میری تین بچیاں اور ایک بیٹا ہے جوکہ حافظ ہے ،میں اپنے والدین کا ایک ہی بیٹاہوں اور میری بھی تین بہنیں ہیں جو کہ الحمد للہ شادی شدہ ہیں ۔میں اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتا ہوں اور پورے گھر کی ذمہ داری اٹھاتا ہوں ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ:

(1)والدہ کہتی ہیں کہ دوکان جو کہ پگڑی کی ہے اس کو بیچ کر حصہ آپس میں بانٹ لو اور والد کا جو قرضہ ہے وہ اس میں سے ادا کردو مگر تم دوکان پر کام نہ کرو۔

والد صاحب بضد ہیں کہ میں اپنی زندگی میں دوکان نہیں بیچوں گا۔ چونکہ وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں اور کام نہیں کرسکتے اس لیے کاروبار مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور دوکان خالی ہوچکی ہے۔ دوکان کے باہر ایک اسٹال لگتا ہے جس سے کچھ تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی ہے۔

لینڈ لارڈ کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہے کہ جب تک آپ زندہ ہیں یہ جگہ آپ کی ہے ،آپ کے بعد یہ جگہ میری ہے اور اس پر تالا ڈال دوں گا یعنی قبضہ کرلوں گا۔اب آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں کہ:

(1)کیا میں اپنی بہنوں کو حصہ دیے بغیروالد کی دوکان پر کاروبار شروع کرسکتا ہوں ؟جبکہ والدہ کا اصرار ہے کہ دوکان فروخت کرکے بہنوں کو حصہ دیا جائے۔

(2)میں اپنی بہنوں کو ورثہ دینا چاہتا ہوں مگر میرے پاس فی الحال کوئی وسائل نہیں ہیں چونکہ میں نوکر ی کرتارہا ہوں اس لیے کچھ بھی بچت نہیں کرپایا۔اگر میں دوکان پر کاروبار شروع کردوں تو اس صورت میں میرا ارادہ ہے کہ میں ایک تحریری معاہدہ کرلوں جس کے تحت دوکان کی موجودہ مالیت کے حساب سے رقم آہستہ آہستہ اپنی بہنوں کو دیتا رہوں گیا۔کیا شرع میں اس کی گنجائش ہے؟

یا آپ حضرات اس مسئلہ کا کوئی حل تجویز کردیں کیونکہ میرے والدین خود بھی اور میں بھی نہایت معاشی پریشانی کا شکار ہوں اور جگہ ہوتے ہوئے بھی کاروبار کرنے سے قاصر ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ والدین کی حیات میں اولاد کا ان کی جائیداد میں کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا۔ہاں اگر والدین اپنی خوشی سے اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔صورت مسئولہ میں چونکہ مذکورہ دوکان سائل کے والد صاحب کے نام ہے اور وہ بقید حیات ہیں اس لیے ان  کی دوکان میں اولاد میں سے کسی کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے۔نیز وہ  اپنی زندگی میں اسے فروخت کرنا بھی نہیں چاہتے اس لیے کسی کو اختیار نہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر دوکان فروخت کرے۔سائل کے والد اگر راضی ہوں تو سائل اپنے والد کی دوکان پر کام کرسکتا ہے،تاہم دوکان پر کام کرنے کی صورت میں سائل کو اپنی حیثیت متعین کرلینی چاہیے کہ وہ کس حیثیت سے کام کرے گا۔اگر چاہے تو والد صاحب کے معاون کی حیثیت سے کام کرے ،اس صورت میں والد اپنی صوابدید کے مطابق نفع میں سے سائل کو جو دینا چاہیں انہیں اختیار ہوگا،اگر چاہے تو والد صاحب سے ملازمت کا معاہدہ کرلے اورمقررہ تنخواہ وصول کرتا رہے اور اگر چاہےتو والد صاحب کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرلے جس کی صورت یہ ہوگی کہ سائل اور اس کے والد اپنی اپنی رقم ملا کر مشترکہ کام شروع کریں ۔پھر عملا کاروبار کرنے کی شرط اگر دونوں پر ہو نفع سرمایہ کے بقدر طے کرنا بھی جائز ہے اور کسی ایک کے لیے زیادہ نفع کی شرط لگانا بھی جائز ہے  اور اگر محنت کرنے کی ذمہ داری کسی ایک پر لگائی جائے تو شریک عامل(کام کرنے والے شریک) کے لیے تو اس کے سرمایہ سے زیادہ نفع طے کرنا جائز ہے ،شریک غیر عامل (کام نہ کرنے والے شریک)کے لیے اس کے سرمایہ سے زیادہ نفع طے کرنا جائز نہیں ہے۔

سائل کے والد کی دوکان چونکہ پگڑی کی ہے اس لیے پگڑی کے حوالہ سے شرعی حکم کا معلوم کرلینا بھی ضروری ہے۔شرعا پگڑی کا مروجہ معاملہ کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ پگڑی کا  معاملہ نہ تو بیع ہے اور نہ ہی کرایہ داری کا معاملہ ہے بلکہ یہ دونوں کے درمیان  کاایک غیر شرعی معاملہ ہے، یہ ایک حق مجردکی خریدو فروخت  ہے اور شریعت میں حقوق مجردہ کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے لہذا پگڑی کا معاملہ بھی شرعا ناجائز ہے اور اس کا ترک کرنا لازم ہے۔

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن التركة ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

(کتاب الفرائض،ج:6،ص:759،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"أماالحق المجرد: فلا يجوز الاعتياض عنه كحق الولاية على النفس والمال وحق الشفعة الخ."

(المبحث الثانی :انواع الحق ،الحقوق المجردۃ وغیر المجردۃ،ج:4،ص:2852،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة الخ."

(کتاب الاجارۃ ،الباب السادس فی اجارۃ المستاجر،ج:4،ص:425،ط:رشیدیہ)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر."

(کتاب الشرکۃ،ج:4،س:312،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں