بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں اس کی بنائی جائیداد اور کاروبار میں بیٹے مالکانہ حق نہیں رکھتے


سوال

میرے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، اور ایک بیٹے کا نتقال ہوچکا ہے،ایک بیٹے کے علاوہ باقی سارے بچوں کی شادی میں نے کرائی ہے، اس وقت میں تین منزلہ ایک گھر اور دو دکانوں کا مالک ہوں، اور ایک گھر  گاؤں میں بھی ہے میرا، یہ سب کچھ  میں نے ذاتی پیسوں سے خریدا اور بنایا  ہے،بیٹوں نے اس میں اپنی طرف سے کوئی رقم نہیں لگائی، وقت گزرنے کے ساتھ میں نے بچوں کو بھی کاروبار میں شامل کردیا، وہ میرے کھڑے کیے گئے کاروبار(یعنی ہوٹل اور ہارڈوئیر کی دکان) پر کام کرنے آتے تھے، اس میں  انہوں نے اپنی طرف سے کوئی ذاتی رقم لگاکر شراکت نہیں کی ہے، اٹھارہ سال سے بیٹے میرے کاروبار میں شامل ہیں، اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ گویا یہ ساری جائیداد (مکانات اور کاروبار وغیرہ)  انہی  کی ہو، جس کا اظہار انہوں نے اپنے عمل سے کیا ہے؟پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری اولاد میری حیات میں میری بنائی ہوئی جائیداد میں مالکانہ حق رکھتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ جائیداد(دونوں گھر اور دکانوں) میں چوں کہ بیٹوں نے اپنی کوئی ذاتی رقم  شامل نہیں کی تھی، بلکہ ساری جائیداد سائل نے اپنے ذاتی پیسوں سے بنائی ہے،لہٰذا اس کا مالک بھی سائل ہی ہے، اوراس  کی حیات میں اس کی اولاد میں سے کوئی بھی مذکورہ جائیداد میں مالکانہ حق نہیں رکھتا، سائل اپنی مرضی سے انہیں جتنا تصرف کرنے کا اختیار دینا چاہے دے سکتا ہے، اس سے زیادہ تصرف کرنے کا اولاد کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

نیز سائل نے اپنا کاروبار بھی چوں کہ خود شروع کرکے اس کو بڑھایا، بعد میں بیٹے   اس میں صرف بطورِ معاون کام کرنے کے لیے شامل ہوئے،اس وجہ سے مذکورہ کاروبار کا مالک بھی سائل ہے، بچوں کا والد کی زندگی میں ان کے مال پر مالکانہ حق جتانا یا والد کی اجازت کے بغیر اس میں کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے: 

لا یجوز لاحد ان یتصرف فی ملک الغیر بلا اذنہ

 (رقم المادۃ96،ج1،ص51،ط:رشیدیہ)

مشکوۃ شریف میں ہے: 

الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ

(باب الغصب والعاریہ،الفصل الثانی، ج1،ص255)

شامی میں ہے: 

الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له

 (کتاب الشرکہ،ج4،ص325،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں