اگر بیٹی کا باپ سے پہلے انتقال ہوجائے اور باپ کا بعد میں انتقال ہو تو کیا اس بیٹی کی اولاد، اپنی والدہ کے حصہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
والد کی زندگی میں جس بیٹی کا انتقال ہو چکا ہو ، والد کے انتقال کے بعد والد کے ترکہ میں اس مرحومہ بیٹی کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، لہذا والد کے ترکہ میں سےاس مرحومہ کا حصہ نکال کر اس کی اولاد کو دینا لازم نہیں ہوگا ، البتہ اگر تمام ورثہ عاقل، بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سے ترکے میں سے مرحوم والدکے نواسے، نواسیوں کو کچھ دینا چاہیں، یا جو عاقل بالغ ورثہ ہوں وہ اپنے حصے میں سے خوشی سے کچھ دینا چاہیں تویہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور ان کو اس کا ثواب ملے گا۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8/ 557):
"وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث، فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201931
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن