بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں وفات پانے والے بیٹے کی بیوہ اور اولاد کا وراثت میں حصہ


سوال

وراثت کی تقسیم اگر والد حیات ہوں  اور بیٹا انتقال کر جاۓ تو کیا اس بیٹے کی بیوہ یا بچوں کو وراثت میں حصہ ملے گا ؟

جواب

جس بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہو جائے اس کی بیوہ  کو مرحوم کے والد  کی میراث میں  سے میراث کے طور پر حصہ نہیں ملے گا،مرحوم بیٹے کی اولاد کے لیے یہ تفصیل ہے کہ :

  1. اگر دادا کے انتقال کے وقت دادا کا کوئی دوسرا بیٹا موجود ہو تو  دادا کے ترکہ میں پوتوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
  2.  اگر دادا کے انتقال کے وقت ان کا کوئی بیٹا زندہ نہ ہو تو دادا کے ترکہ میں پوتے وارث ہوں گے۔

تاہم اگر مرحوم بیٹے کے  والد اس  کی بیوہ یا اولاد کے لیے (جب وہ وارث نہ ہوں)   ایک تہائی تک وصیت کر یں تو یہ وصیت معتبر ہوگی، کل جائیداد کے ایک تہائی حصے میں ان کی وصیت کے مطابق  اس کی بیوہ اور اس کی اولاد کو رقم ملے گی۔

صحیح بخاری میں ہے:

'وقال زيد: ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن."

(باب میراث ابن الابن، ج:8،ص:151،ط: دار طوق النجاہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:90،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں