بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زمین سے کھانے پر بیوی کی تین طلاق کو معلق کرنا


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں کہ میں اپنے والد کی زمین نہیں کھاؤں گا، اگر کھایا تو میری بیوی پر تین طلاق، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوئی صورت ممکن ہے؟ کیوں کہ اس کا اس زمین کے علاوہ کوئی گزر بسر نہیں ہے۔

وضاحت: زمین میں فصل وغیرہ ہوتی ہے، جو گھر میں کھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور اس كي مراد زمين كي فصل هے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص  نے  یہ  کہا کہ : ” میں اپنے والد کی زمین نہیں کھاؤں گا، اگر کھایا تو میری بیوی پر تین طلاق“ تو اس زمین سے  نکلنے والی کھیتی، اناج وغیرہ  کے کھانے پربیوی کی طلاق معلّق ہوجائے گی ، اگر مذکورہ  شخص اس کے بعد  اپنے والد کی   مذکورہ زمین  کے غلّہ سے کچھ کھالے گا تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ 

تین طلاق سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ   مذکورہ شخص اپنی بیوی  کو   ایک طلاقِ رجعی دے  دے  یعنی صریح الفاظ میں یہ کہہ دے: ” میں نے تمہیں ایک طلاق دی“ اور عدت میں رجوع نہ کرے، جب بیوی کی عدت  ختم ہوجائے (یعنی تین ماہواریاں گزر جائیں  یاحاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل  هوجائے) تو وہ اپنے والد کی مذکورہ زمین کے غلہ  میں سے کھالے،  ایسا کرنے سے یہ تعلیق ختم ہوجائے گی، اور  چوں کہ اُس وقت وہ عورت  مذکورہ شخص کے  نکاح  میں نہیں ہوگی؛ اس لیے  شرطيه تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی اور شرط  پوری  ہوجائے گی، پھر دونوں میاں بیوی دوبارہ  ساتھ رہنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے  نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور  آئندہ کے لیے  شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی  ہوگا۔

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(حلف لا يأكل من هذه النخلة) أو الكرمة (تقيد حنثه بأكله من ثمرها) بالمثلثة أي ما يخرج منها بلا تغير بصنعة جديدة فيحنث بالعصير لا بالدبس المطبوخ، ولا بوصل غصن منها بشجرة أخرى (وإن لم يكن) للشجرة ثمرة (تنصرف) يمينه (إلى ثمنها فيحنث إذا اشترى به مأكولا وأكله، ولو أكل من عين النخلة لا يحنث) وإن نواها لأن الحقيقة مهجورة ولوالجية. وفي المحيط لو نوى أكل عينها لم يحنث بأكل ما يخرج منها لأنه نوى حقيقة كلامه قال المصنف تبعا لشيخه وينبغي أن لا يصدق قضاء لتعين المجاز. زاد في النهر فإن قلت: ورق الكرم مما يؤكل عرفا فينبغي صرف اليمين لعينه. قلت: أهل العرف إنما يأكلونه مطبوخا.

وفي الرد: مطلب حلف لا يأكل من هذه النخلة

مطلب إذا تعذرت الحقيقة أو وجد عرفا بخلافها تركت

(قوله: حلف لا يأكل من هذه النخلة إلخ) الأصل في جنس هذه المسائل أن العمل بالحقيقة عند الإمكان، فإن تعذر أو وجد عرف بخلاف الحقيقة تركت، فإذا عقد يمينه على ما هو مأكول بعينه انصرفت إلى العين لإمكان العمل بالحقيقة، وإذا عقدها على ما ليس مأكولا بعينه أو هو مأكول إلا أنه لا تؤكل عينه عادة انصرفت إلى ما يتخذ منه مجازا لأن العمل بالحقيقة غير ممكن، فإذا حلف لا يأكل من هذه الشاة شيئا فأكل من لبنها أو سمنها لا يحنث لأن عين الشاة مأكولة فينصرف إلى عينها لا ما يتولد منها وكذا العنب، فلا يحنث بزبيبه وعصيره، وفي النخلة يحنث بتمرها وطلعها لأن عينها غير مأكولة، وفي الدقيق يحنث بخبزه لأن الدقيق وإن كان يؤكل إلا أنه لا يؤكل كذلك عادة وتمامه في الذخيرة...

(قوله: فيحنث إذا اشترى به مأكولا وأكله) لفظة وأكله زادها في البحر على ما في الفتح. قال في الشرنبلالية: وقد يقال يراد بالأكل الإنفاق في أي شيء فيحنث به إذا نوى فلينظر. اهـ.

قلت: إذا نوى ذلك لا كلام، أما إذا لم ينو فالظاهر تقييده بالأكل حقيقة، حتى لو اشترى به مشروبا وشربه لا يحنث إلا إذا أكله مع غيره عملا بحقيقة الكلام ما لم يوجد نقل بخلافه فافهم." 

(3 / 767، كتاب الايمان، مطلب حلف لا يأكل من هذه النخلة، ط سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حلف لا يأكل من زروع فلان فأكل منه ما هو عند المزارع أو عند المشتري منه يحنث وإن اشترى منه آخر وبذره فأكل من ذلك الخارج لا يحنث كذا في الوجيز للكردري."

 (2 / 89، کتاب الأيمان، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."

(3/ 355، كتاب الطلاق، باب التعليق، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں