بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی وصیت کہ بیٹا میرے جنازہ میں شریک نہ ہو کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص اختلافات کی وجہ سے اپنے سگے اور اکلوتے بیٹے کے بارے میں یہ وصیت کرے کہ میرا بیٹا نہ میرے جنازے کو کاندھا دے نہ میرا مرا ہوا منہ دیکھے اور پھر اس شخص کا انتقال ہو جائے اور وہی اکلوتا سگا بیٹا اپنے والد کے جنازے کو کندھا بھی دے اور اسے قبر میں بھی اتارے تو کیا ایسا کرنے سے اس کا بیٹا گناہ گار ہوگا؟ کیا ایسی صورت میں بیٹے کو جنازے میں شرکت کرکے اپنے والد کے تدفین کے مراحل کو مکمل کرنا گناہ کا باعث ہوگا؟ 

جواب

مرحوم کی مذکورہ وصیت شرعاً معتبر نہیں ہے، بیٹے کا  مرحوم والد کے جنازے اور تدفین تک کے تمام مراحل میں شرکت کرنا باعثِ گناہ نہیں ہے، بلکہ والد کے حقوق میں سے ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ: 182)

فتاوی شامی میں ہے:

"أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة."

(کتاب الوصایا، ج: 6، صفحہ: 666، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں