بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی وفات کے بعد بڑے بیٹے کے سر پر پگڑی باندھنا


سوال

ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب کوئی مرد فوت ہو جائے تو اس کے بھائی اگر موجود ہوں یا میت کے بھتیجے اس میت کے بڑے بیٹے کے سر پر پگڑی باندھتے ہیں کہ اب باپ کی جگہ یہ گھر کا سرپرست ہے، سوال یہ ہے کہ  مرنے والے کے بیٹے کو پگڑی باندھنا سنت ہے یا نہیں؟باندھنی چاہیے یا نہیں؟

جواب

والد کی وفات کے بعد بڑے بیٹے کی دستار بندی   شرعاً ثابت نہیں ہے، سنت نہیں ہے، لہٰذا اس کو شرعی حکم سمجھنا ،  یا  اس کو ضروری اورلازم سمجھ کر کرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر    اس میں مذکورہ خرابیاں نہ ہوں، بلکہ یہ باہمی رضامندی سے  صرف اس مقصد کے لیے کیا جاتا ہو کہ والد کی وفات کے بعد   گھر کا انتظامی سربراہ بڑا بیٹا ہے  تو اس صورت میں یہ ایک انتظامی معاملہ  ہے، جو  ناجائز نہیں ہے،اور لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ والد کا جانشین یہ ہے۔

نخب الأفکار میں ہے:

"قوله: "وإياكم" أي: احذروا..."محدثات الأمور" وهي التي لم تكن معروفة في كتاب ولا في سُنَّةٍ ولا إجماع...قوله: "بدعة": وهي إحداث أمر لم يكن في زمن النبي - عليه السلام -.

ثم الابتداع إذا كان من الله وحده فهو إخراج الشيء من العدم إلى الوجود، وهو تكوين الأشياء بعد أن لم تكن، وليس ذلك إلَاّ إلى الله تعالى.

فأما من المخلوقين فإن كان في خلاف ما أمر الله به ورسوله فهو في حيز الذم والإنكار، وإن كان واقعا تحت عموم ما نَدب الله إليه وحضَّ عليه أو رسوله فهو في حيز المدح وإن لم يكن مثاله موجودا؛ كنوع من الجود والسخاء وفعل المعروف فهذا فعل من الأفعال المحمودة لم يكن الفاعل قد سُبِقَ إليه، ولا يجوز أن يكون ذلك في خلاف ما ورد به الشرع؛ لأن رسول الله - عليه السلام - قد جعل له في ذلك ثوابا فقال: "من سنَّ سنة حسنة كان له أجرها وأجر من عمل بها" وقال في ضده: "من سنَّ سُنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها" وذلك إذا كان في خلاف ما أمر الله به ورسوله."

(كتاب الطهارة، ج:٢، ص:١٥٢، ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية،قطر)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"سوال:بعض علاقوں میں باپ کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے کو وارث بنانے کے لیے اجتماعی حالت میں اس کے سر پر پگڑی باندھتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب:یہ بھی محض رسم ہے، اور اگر کسی شرعی حکم کے خلاف نہ ہو، مثلاً:تمام وارثوں پر وراثت تقسیم کی جائے، تو کوئی حرج نہیں۔"

(میت سے متعلق متفرق مسائل، ج:4، ص:328، ط:مکتبۂ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں