بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی سخت مزاجی اور زیادتی کی صورت میں اولاد کے لیے لائحۂ عمل


سوال

 میں ایک جگہ قرآن پڑھا رہا ہوں، میرے والد محترم انتہائی سخت مزاج ہیں اور بہت غصے والے ہیں اور اب ان کی عمر بھی کافی ہو گئی ہے،گھر کے اندر سب کو اکثر مارتے پیٹتے ہیں، میری بیوی کو بھی مارتے ہیں، اپنی بیوی کو بھی مارتے ہیں،  ہم بہت زیادہ پریشان ہیں، اس کا کوئی حل بتائیں!

جواب

آپ کے والد کا اپنی بہو کو مارنا قطعاً جائز نہیں ہےاور شریعت میں اپنی بیوی کو بھی مارنے کی حدود و قیود کے ساتھ  مشروط اجازت دی گئی ہے، بہو کو مارنا یا بیوی کو بات  بے بات مارنا، مارتے ہوئے حد سے بڑھ جانا ظلم و زیادتی ہے، جس پر آخرت میں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے، تاہم اس ظلم و زیادتی کے باوجود آپ کے لیے والد کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انھیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والد جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں،اور  جن باتوں پر آپ کے والد غصہ ہوتے ہیں یا جو امور ان کے مزاج کے خلاف ہیں ان سے اجتناب  کریں علاوہ ازیں والدین کو خدمت کی ضرورت نہ ہو تو الگ رہائش کر لیں بوقت ضرورت ان کی ضروریات پوری کر دیا کریں ،اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

"{رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}."

’’یعنی اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔‘‘

 والد  کی زیادتی پر یہ سوچیں کہ بچپن میں ہم نے والد کو کتنا تنگ کیا، ہم بھی بے جا غصہ ہوتے تھے، بے وقوفی کی باتیں کرتے تھے، ایک ہی سوال کئی کئی مرتبہ کیا کرتے تھے، لیکن والد بڑی محبت سے جواب دیتے تھے اور ہمیں سمجھاتے تھے، وہ غصہ نہیں ہوتے تھے، یہی بات بیوی کو بھی سمجھائیں کہ آج یہ بوڑھے ہیں کل ہماری یہ حالت ہوجائے اور ہماری اولاد ہمارے ساتھ سخت رویہ رکھے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟! اور بچوں کے دل میں بھی دادا  کی محبت اور احترام بٹھائیں۔ 

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے امید ہے کہ اس میں آپ کے لیے تشفی بخش جواب موجود ہوگا،ملاحظہ ہو:

’’ ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘  یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں۔” مثلاً: اگر والدین کہیں کہ: “نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔۔۔الخ

چہارم:… والدین اگر ماریں پیٹیں، گالی گلوچ کریں، بُرا بھلا کہیں یا طعن و تشنیع کرتے رہیں، تو ان کی ایذاوٴں کو برداشت کیا جائے اور ان کو اُلٹ کر جواب نہ دیا جائے۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل 8/558)

حاصل یہ ہے کہ  اولاد کی طرف سے والد کے ساتھ حسنِ سلوک اور حقوق کی ادائیگی کے باوجود اگر والد  اولاد کا خیال نہ رکھے، انہیں پیار و محبت نہ دے،  زیادہ غصہ ہوتا ہو، تو ان اَحوال میں بھی اولاد کے لیے والد سے سختی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، نہ ہی والد کی اِصلاح اولاد کا منصب ہے، ہاں خاندان کے کسی بڑے سے کہہ کر حکمت کے ساتھ ان کی فہمائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جیسے دیگر امور کے بارے میں سوال فرمائیں گے اسی طرح اولاد کے حقوق کے بارے میں سوال ہوگا۔ لیکن اولاد خود اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرے، اس سے والد کو تکلیف اور گرانی محسوس ہوگی، قرآنِ پاک میں ہے کہ والدین اگر اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اولاد ان کی اطاعت نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ پھر بھی اچھا سلوک رکھے۔ شرک و کفر سے بڑھ کر کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟! اس پر مجبور کرنے کے باوجود والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے تو ذاتی نوعیت کی زیادتیاں اور ظلم تو بہت کم درجے کے ہیں، اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان."

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ص: 421، ط: قديمي)

ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔‘‘ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں