بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم


سوال

ہمارے دادا کی   گاؤں میں  زمینیں تھیں ،اس کی تقسیم کا کیا حکم ہے  ، ورثاء میں  صرف ایک بیٹا اور  ایک بھتیجا  ہے،والدین  پہلے ہی انتقال کرگئے  تھے  بیٹیاں نہیں ہیں،  پھر اس بیٹے کا  انتقال ہوگیا   ،ورثاء میں  2 بیٹے  اور 5 بیٹیاں  تھی   ، ان میں سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا والد کی زندگی میں  ہی انتقال ہوگیا تھا،  ان کی بیوی بھی ان سے پہلے  انتقال کرگئی تھی ، میراث کیسے تقسیم ہوگی ، ہمارا یہ ایک بھائی جو کہتا ہے  کہ زمین  میں اپنی مرضی سے تقسیم کرونگا  یہ زمین ابو نے   ساری  مجھے گفٹ کی ہے  اس میں  تمھارا بہنوں کا کوئی حق نہیں ہے  ،البتہ میں اپنی مرضی سے کچھ نہ کچھ دے دوں گا،   ہم چاروں مجبور  اور تنگ دست  بہنیں ہیں  ،بھائی ہمیں والد کی جائیداد میں سے حصہ نہیں  دیتا اس کا   ایسا کرنا جائز ہے ، گاؤں میں ان زمینوں سے 22 سال سے فصل استعمال کرتا ہے  ہم کو کچھ نہیں  دیاشرعاً اس فصل میں ہمارا  حصہ نہیں؟ کراچی میں ہماری والدہ  کا ایک   مکان ہے  ڈیڑھ کروڑ  روپے کا ، اس مکان  کو بھائی نے  اپنے نام کروایا  دھوکے سے  اس مکان میں بھی بھائی نے  ہمیں حصہ نہیں دیا  شرعاً کیا حکم ہے ؟

جواب

(الف)صورت مسئولہ میں  سائلہ کا بھائی یہ دعوی کر رہا ہے کہ یہ زمین  ابونے مجھے گفٹ کی ہے، جبکہ  بہنیں اس  سے انکاری ہیں تو ایسی صورت میں چونکہ گفٹ دینے کے لیے محض گفٹ کافی نہیں ،بلکہ عملاً قبضہ وتصرف دینا بھی ضروری ہے،اس لیے فریقین کو  چاہیے کہ معاملہ کو کسی معتبر عالم دین یا مفتی صاحب کے سامنے رکھیں  اور انکو فیصل مقرر کریں ،بہن چونکہ مدعیہ ہے اس لیے بھائی پر لازم ہے کہ شرعی شہادت  سے اپنے دعوی  گفٹ کو ثابت کرے اور پھر یہ بھی ثابت کریں کہ مرحوم نے اپنی حیاتی  میں اس کا مکمل  قبضہ وتصرف  بھی دے دیا تھا ،اگر شرعی شہادت  سے اس کا یہ  د عوی ثابت ہوجاتا ہے تو   دعویٰ والی یہ زمین   اس کی ملک ہوں گی ،لیکن اس صورت میں والد کا یہ اقدام اولاد کے درمیان ناانصافی کے زمرے میں آتاہے ، اس  نا انصافی  کی وجہ سے والد گناہ گار ہوگا اس لئے کہ والد نے اپنی دیگر اولاد کو محروم کرکے اپنی مملوکہ زمین صرف ایک کو دی اور اگر شرعی شہادت  سے اپنا دعوی(گفٹ اور قبضہ )  کو ثابت نہ کرسکا تو بہنوں سے  عدم علم کی قسم  لیکر ان کے حق میں فیصلہ  ہوگا ، پھر مذکورہ زمینیں والد کا ترکہ شمار ہوکر  تمام ورثاء میں شرعی تناسب سے تقسیم ہوں گی ، سائلہ کےدادا  مرحوم  کی  میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ  یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات )ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو باقی ترکہ سے ادا کرنے کے  بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  ترکہ کے تہائی  حصہ میں سے اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ کے کل 6حصے کرکےمرحوم   کے  بیٹے کو 2 حصے ،مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو  1،1 حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت : 1

بیٹابھتیجا
1محروم 

میت:6    مف :1

بیٹابیٹی بیٹیبیٹیبیٹی 
 1111

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 33.33روپے ،مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو 16.66روپے ملیں گے۔

(ب)سائلہ کے بھائی نے گاؤں کی متروکہ مشترکہ زمین پر 22سال تک جو فصل کاشت کی ہے   اصولاً تو  اسے اپنے لیےاجازت  لیکر یہ کام کرنا چاہیے تھا ،باقی اس نے بلااجازت کاشت کی ہے تو چونکہ دیگر ورثاءنے ان کا کوئی اجارہ  طے نہیں کیا ،لہذا جو فصل اس نے حاصل کی وہ سائلہ کے بھائی ہی کی شمار ہوگی ،البتہ آئندہ کے لیے اگر کرایہ کا معاہدہ  کرنا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے ،نیز اگر اس زمین کی تقسیم چاہیں تو ان کے درمیان شرعی حصوں کے بقدر  کرنا ضروری ہے ۔

 (ج)سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے تو اس صورت  میں سائلہ کے بھائی  کا  میراث  کے مال   پر قبضہ کرنا شرعاً ہرگز جائز  نہیں  ہے،  سائلہ کے بھائی  پر لازم  ہے  کہ میراث میں  بہنوں کو ان کا حق وحصہ  اس دنیا میں دے دے ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ،حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں:

  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

منافع ‌الغصب غير مضمونة إلا أن يكون وقفا أو مال يتيم أو معدا للاستغلال فصرح بضمان منافع الثلاثة.

کتاب الغصب،ج:6،ص:186،ط:دارالفکر بیروت

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

 "وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

  (1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں