ہم 5 بھائی اور 1 بہن ہیں، ہمارے بڑے بھائی کے پاس ایک کمرہ ہے، اس کے 2 بچے ہیں، اور باقی بھائیوں کے پاس بھی ایک ایک کمرہ ہے، گھر والد صاحب کے پیسوں کا ہے، بڑا بھائی تقاضا کر رہا ہے کہ اسے دو کمرے چاہییں، تاہم والدین منع کر رہے ہیں کہ جب سب بھائیوں کے پاس ایک ایک کمرہ دیا ہے تو تمہیں بھی ایک ہی کمرہ ملے گا، سوال یہ ہے کہ کیا والد صاحب کو منع کرنے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے ، یعنی ان کی مرضی ہے کہ دیں یا نہ دیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر چوں کہ والد کی ملکیت ہے، لہذا جب تک وہ حیات ہیں، اپنے گھر میں تصرف کا پورا حق رکھتے ہیں، اولاد میں سے کسی کو ان کی مرضی کے خلاف کچھ بھی لینے کا شرعًا حق نہیں، اور نہ ہی کوئی بیٹا والد کو مجبور کرنے کا حق رکھتا ہے۔
غاية المقصد فى زوائد المسند لنور الدين الهيثميمیں ہے:
2081 - حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِى هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِى صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِى حُمَيْدٍ السَّاعِدِىِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لمُسْلِمِ، أَنْ يَأْخُذَ مَالَ أَخِيهِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، وَذَلِكَ لِمَا حَرَّمَ اللَّهُ مَالَ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ.
( كتاب الغصب، باب الغصب وحرمة مال المسلم، 2 / 203، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،٣ / ٢٠١، المادة: ١١٩٢، ط: دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201835
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن