بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی لگائے ہوئی شرائط کی مخالفت کرتے ہوئے بیٹی کا نکاح والدہ اور بھائیوں کی موجودگی میں منعقد ہو جائے گا۔


سوال

ایک لڑکی اپنے بھائی کے پاس امریکہ میں رہتی ہے، اس کی والدہ بھی بھائی کے ساتھ رہتی ہیں جب کہ والد پاکستان میں ہیں، لڑکی  کے والد نے اس کی شادی ایک جگہ طے کی تھی، شادی سے پہلے والد نے کچھ ایسی عجیب شرائط لگا دیں جس پر نہ اس لڑکی کی والدہاور بھائی بہن راضی ہیں  اور نہ ہی سسرال والوں نے ان شرائط  کو قبول کیا، والد بہت ضدی اور سخت مزاج کے ہیں،  اب لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ اگر میری شرائط کو تسلیم کیا جائے گا تو میں شادی کی اجازت دوں گا اور اگر اسے تسلیم نہ کیا گیا  تو میری اجازت نہیں ہوگی اور میری اجازت کے بغیر اگر نکاح کیا گیا تو وہ شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

اب اگر لڑکی اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کی موجودگی میں والد کی رضامندی کے بغیر نکاح کر لے تو کیا اس کا یہ نکاح شرعی طور پر جائز ہوگا؟ لڑکے والے لڑکی والوں کے برابری کے ہیں ان سے کمتر نہیں ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً لڑکالڑکی کاکفو ہے،  یعنی لڑکے کے خاندان والے لڑکی کے خاندان  والوں کے برابر اور ہم پلہ ہیں  اور لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اور وہ مذکورہ صورتِ حال میں والد کی اجازت کے بغیر شرعی طریقہ کے مطابق نکاح کرنا چاہتی ہےتو شرعاً یہ  نکاح منعقد ہو جائے گا اور اس کے بعد والد کو اس نکاح کو ختم کرانے کا اختیار نہیں ہوگا، لیکن مناسب یہی  کہ والد کو کسی طرح راضی کر کے ان کی رضامندی کے ساتھ نکاح کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - في ظاهر الرواية، كذا في التبيين".

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح1/ 287، ط:رشيدية)

ہدایہ میں ہے:

"(وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها) وإن لم يعقد عليها ولي بكرا كانت أو ثيبا (عند أبي حنيفة وأبي يوسف) رحمهما الله (في ظاهر الرواية)...ثم في ظاهر الرواية لا فرق بين الكفء وغير الكفء ولكن للولي الاعتراض في غير الكفء"

فتح القدير   میں ہے:

"وحاصل ما عن علمائنا - رحمهم الله - في ذلك سبع روايات: روايتان: عن أبي حنيفة تجوز مباشرة البالغة العاقلة عقد نكاحها ونكاح غيرها مطلقا إلا أنه خلاف المستحب وهو ظاهر المذهب".

(‌‌كتاب النكاح،باب الأولياء والأكفاء، 3/ 256، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں