بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں اپنے والد کی جگہ کسی اور کا نام لکھنا


سوال

اگر کوئی خاتون نکاح میں اپنے والد کے جگہ کسی اور شخص کا نام درج کرے تو کیا نکاح خراب ہو گا؟ اور پھر اس کی اولاد حرام ہو گی کیا؟

جواب

نکاح کے درست ہونے  کے لیے ضروری ہے کہ  جس عورت سے شادی ہورہی ہے وہ متعین اور معلوم ہو، اس  کے لیے لڑکی کا نام مع ولدیت کے  بولا اور لکھا جاتا ہے، لہذا اگر  اس نے اپنا نام لکھوایا ہے اور والد کا نام غلط لکھوایا لیکن وہ خود نکاح کے وقت موجود تھی تو بھی  نکاح  درست ہے،اور اولاد بھی حلال ہے۔ اور اگروالد کا نام غلط لکھوایا اور لڑکی موجود نہیں تھی تو  نکاح درست نہیں۔

بہرحال اگر دلہن مجلسِ نکاح میں موجود تھی تو بھی اپنے والد کی جگہ کسی اور کا نام ظاہر کرنا کبیرہ گناہ ہے،  اس سے توبہ کرنا اور اس کی تصحیح کرنا لازم ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

’’اُدْعُوْهُمْ لِأٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ، فَإِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا أٰبَائَهُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِي الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ، وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا أَخْطَأْتُمْ بِهٖ ولٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ‘‘۔(الاحزاب:۵)

ترجمہ:…’’تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تووہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تو تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو‘‘۔(بیان القرآن)

و فيه أيضًا (۲۶/۳):

(قوله:  إلا إذا كانت حاضرةً الخ ) راجع إلى المسألتين أي فإنها لو كانت مشارًا إليها و غلط في اسم أبيها أو اسمها لايضرّ؛ لأنّ تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو؛ فإنه يصحّ."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 26):

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصحّ.

(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها."

فتاوی دارالعلوم دیوبند۔7-97

’’اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر لڑکی حاضر ہو اور اس کی طرف اشارہ کیا جائے تو ایسی غلطی سے نکاح ہوجاتا ہے اور اگر حاضر نہ ہو نکاح صحیح نہیں ہوتا،  او رشامی میں یہ بھی تحقیق فرمائی ہے کہ اگر گواہ منکوحہ کو جانتے ہوں تو بدون باپ کے نام  لیے نکاح ہوجاتا ہے،  لیکن اگر باپ کی جگہ دوسرے شخص کا نام لیا جاوے اور بنتِ  فلاں کہا جاوے تو اس صورت میں اگرچہ گواہ اس منکوحہ کو جانتے بھی ہوں تب بھی نکاح صحیح نہیں ہوتا۔البتہ حاضر ہونے کی صورت میں جب کہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے کہ اس عورت کا نکاح کیا جو کہ فلاں بنت فلاں ہے تو غلطی کی صورت میں بھی نکاح صحیح ہے، خواہ اس منکوحہ کا نام غلط لیا گیا ہو یا اس کے باپ کا؛ "فإنها لو کانت مشاراً إلیها و غلط في اسم أبیها أو اسمها لایضرّ الخ شامی۔"

( مجتبائی ص ۲۵۷ ج ۲ فقط ( رد المحتار کتاب النکاح ص ۳۷۸ ج ۳ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں