بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی اجازت سے والد کی زمین کا کچھ حصہ مہر میں لکھوانے کا حکم


سوال

1)میں نے اپنی بیوی کو ان الفاظ سے تین مرتبہ طلاق دی کہ "میں صدف کو طلاق دیتا ہوں "۔

2)میں نے حق مہر میں ایک لاکھ روپے بطور سونااور تین تولہ طلائی زیورات ادا کیا تھا،اس کے علاوہ گھر کا آٹھواں حصہ بھی حق مہر میں لکھوایا تھا ،یہ گھر والد صاحب کی ملکیت میں تھا ،سسر کے کہنے پر والد صاحب نے میری بیوی کے حق مہر میں لکھوایا تھا ،والد صاحب نے اس گھر کا قبضہ وغیرہ مجھے نہیں دیا تھا ،کیااب آٹھواں  حصہ بھی مہر میں دینا لازم ہے ؟

3)نکاح نامہ میں 5000 روپے ماہانہ نفقہ لکھوایا تھا ،اب سسرال والے عدت کا نفقہ بھی مانگ رہے ہیں ،کیا یہ  نفقہ بیوی  کو دینا لازم ہے؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ،نکاح ختم ہو گیا ہے،اب رجوع یا مزید رہنے کی گنجائش نہیں ہے ،مطلقہ عدت (اگر حاملہ نہیں ہے تو تین ماہواریاں ،اور اگر حاملہ ہے تو بچہ کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔

2)  مذکورہ گھر کا آٹھواں حصہ مطلقہ کا ہی حق ہے ،اس کو مذکورہ مکان کا آٹھواں حصہ یا اس کی موجودہ قیمت دینا لازم ہے،مطلقہ کو اپنے سسر یا اپنے سابقہ شوہر دونوں سے مطالبہ کا حق ہے ۔

3) عدت کا نفقہ  دینا بھی سائل پر لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إلا إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض"

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب المهر،مطلب في ضمان الولي المهر ،ج:3،ص:144، ط:سعید)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الخالق ،و تکملۃ الطوری میں ہے:

"واستفيد من صحة الضمان أيضا أن الأب لو مات قبل الأداء فللمرأة الاستيفاء من تركة الأب"

(کتاب الطلاق ،باب المہر ،ج:3،ص:188،ط:دار الکتاب الاسلامی)

کفایت المفتی میں ہے:

"اگر والد نے مہر کی ضمانت کی ہو تو والد پر ادائیگی لازم ہے ورنہ بیٹے پر ادا کرنا لازم ہے۔"

(ج:5،ص:122،ط:مکتبہ حقانیہ)

فتاوی عالمگیریہ  میں ہے:

"و إن كان ‌الطلاق‌ ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، باب فیما تحلّ به المطلقة:ج:1،ص:473ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

 ’’المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعياً أو بائناً، أو ثلاثاً حاملاً كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان‘‘.

( کتاب الطلاق ،باب فی النفقات ،فصل فی نفقۃ المعتدۃ،  ج:1،ص:557،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں