بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی اجازت کے بغیر ان کے پیسے لینا


سوال

کیا والد کی اجازت کے بغیر غیر شادی شدہ بیٹی ان کے پیسے لے سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی دوسرے کامال اس کی بخوشی اجازت کےبغیر استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ،خواہ وہ مال والدین جیسےقریب ترین اعزہ اور ساتھ رہنے والوں  کا کیوں نہ ہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کی اجازت کے بغیر اولاد کا  کا ان کے پیسے لینا شرعاً جائز نہیں ہے،خواہ شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة،ج:2،ص:889،رقم الحدیث:2946،ط:المکتب الاسلامي بیروت) 

ترجمہ:حضرت ابو حرۃ رقاشی رحمہ اللہ نے اپنے چچا سے نقل کیا ہےکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خبر دار کسی پر ظلم نہ کرنا ،اچھی طرح سنو  کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے‘‘۔

(مظاہر حق جدید،ج:3،ص:173،ط:مکتبہ العلم)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه. هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار.

(المادة 97) :لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي.

(بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع، والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة يحق أخذ مال الغير."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ج:1، ص:98،ط:دار الجیل)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولطفله الفقير) أي تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده ‌الصغير ‌الفقير۔۔۔وقيد بالفقير؛ لأن الصغير إذا كان له مال فنفقته في ماله."

(كتاب الطلاق، باب النفقة،ج:4،ص:218،ط:دار الكتاب الإسلامي)

والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں