بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی اجازت کے بغیر بھائی کا بہن کی شادی کرانا


سوال

 ایک شخص جو  کہ عالمِ دین ہے ، اور اس کے والد  اور تین بھائی بھی عالمِ دین ہیں ، اس کا ایک بیٹا (جو عالمِ دین نہ تھا) جس کو ایک لاکھ کی ضرورت تھی، اس نے اپنے ایک دوست سے طلب کیے تو اس کے دوست نے اس شرط پر دیئے کہ تم اپنی بہن سے میرا نکاح کراؤ، اس نے گھر والوں کی اجازت کے بغیر بہن کو عدالت میں لے جاکر اپنے دوست سے اس کا نکاح کروادیا۔ 

لڑکی کا باپ اس پر راضی نہ ہوا، کیوں کہ لڑکا اور اس کاگواہ ان پڑھ ہیں  اور لڑکی کا خاندان علماء کا ہے۔ (یہ  لڑکی کے باپ کاکہنا ہے کہ نکاح باطل ہے،  غیر کفو کی وجہ سے)

معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا یہ نکاح باطل ہے؟ باطل ہونے کی صورت میں ان سے جو تین بچے ہیں ان کا کیا حکم ہےاور کون حق دار ہے؟ 

وضاحت: لڑکی اس نکاح پر راضی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ مذکورہ لڑکی کی اجازت سےگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرایا گیا ہےتو یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے، اب بچوں کی پیدائش کے بعد لڑکی کے ولی کا اعتراض کرنا اور عدالت کے ذریعہ اسے فسخ کرانے کا حق نہیں، چوں کہ نکاح برقرار ہے لہذا شوہر اور بیوی دونوں کو بچوں کی پرورش کا اختیار ہوگا۔

هدايه ميں هے:

"وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولى بكرا كانت أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله في ظاهر الرواية."

(کتاب النکاح، باب فی الأولیاء والأکفاء، 1/ 191، ط: سعید)

و فیہ ایضا:

"وإذا زوجت المرأة نفسها من غير كفء فللأولياء أن يفرقوا بينهما  دفعا لضرر العار عن أنفسهم."

(كتاب النكاح، باب في الأولياء و الأكفاء، 1/ 195، ط: دار إحياء التراث العربی)

و فیہ ایضا:

" فإذا غاب الولي الأقرب غيبة منقطعة جاز لمن هو أبعد منه أن يزوج."

(كتاب النكاح، باب في الأولياء و الأكفاء، 1/ 195، ط: دار إحياء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الأب له ولاية في الجملة، وله حق الاعتراض لو الزوج غير كفء."

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات،3/ 53، 54، ط: سعید)

و فيہ ايضا:

"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (‌تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به (ويفتى) في غير الكفء."

(کتاب النکاح، باب الولی، 3/ 56، ط: سعید)

الدر المختار شرح تنویر الابصار میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب۔۔۔۔۔۔ والأم والجدة أحق بہا أي بالصغیرة حتی أي تبلغ ۔۔۔۔۔۔ وغیرہما أحق بہا حتی تشتہي وقدر بتسع وبہ یفتی ۔۔۔۔۔۔ وعن محمد أن الحکم في الأم والجدة کذالک وبہ یفتی لکثرة الفساد."

(باب الحضانة، 3/ 567 ،566، ط: سعید)

و فیہ ایضا:

"(وحرفة) فمثل حائك غير كفء لمثل خياط ولا خياط لبزاز وتاجر ولا هما لعالم وقاض۔۔۔

و فی الرد تحتہ: (قوله ولا هما لعالم وقاض) قال في النهر وفي البناية عن الغاية الكناس والحجام والدباغ والحارس والسائس والراعي والقيم أي البلان في الحمام ليس كفؤا لبنت الخياط ولا الخياط لبنت البزاز والتاجر ولا هما لبنت عالم وقاض."

(کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، 3/ 90، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں