بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی اجازت و رضامندی کے بغیر اس کا مملوکہ مکان بہو کے مہر میں لکھوانے کا حکم


سوال

میرے بیٹے کی شادی 11 اکتوبر اور 1998 میں ہری پور میں سرانجام پائی، نکاح نامے میں مہر مبلغ پچاس ہزار روپے اور ایک عدد مکان نمبر 1115 سیکٹر  2 کھلابٹ ٹاؤن شپ لکھا گیا تھا، مذکورہ مکان جو میرے بیٹے کے نکاح نامہ میں بطور مہر لکھوایا گیا ہے یہ مکان میری ملکیت ہے ،اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے،لیکن نکاح نامے میں بطور مہر یہ مکان میری مرضی اور مشورے کے بغیر درج کیا گیا تھا، میں نے اس کی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی جرگہ والوں نے مجھ سے اجازت لی تھی،  اور نہ ہی مجھے بتایا گیا تھا، اب مجھ  سے کہا جا رہا ہے کہ میں یہ مکان بطور مہر بہو کو دے دوں، آپ مجھے یہ بتائیں کے کہ کیا مجھ پر لازم ہے کہ میں اپنا یہ مکان بہو کو مہر میں دے دوں ؟یا مہرادا کرنا بیٹے کی اپنی ذمہ داری ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ بیٹے کے نکاح نامے میں بطور مہر آپ کا مملوکہ مکان آپ کی اجازت اور رضامندی کے بغیر لکھوایا گیا ہے اور آپ کو اس کا علم ہونے پر آپ نے منع کردیا تھا تو ایسی صورت میں آپ پر شرعاً لازم نہیں ہے کہ آپ اپنا وہ مکان بہو کو بطور مہر ادا کریں، اور چوں کہ آپ نے مہر ادا کرنے کی ذمہ داری بھی نہیں لی ہے اس لیے مہر ادا کرنا بیٹے کے ذمہ ہی لازم ہے، لہٰذا آپ کے بیٹے پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو بطور مہر پچاس ہزار روپے دینے کے ساتھ ساتھ  مہر میں لکھوائے گئے مکان کی موجودہ قیمت کے بقدر کوئی دوسرا مکان یا اس مکان کی مالیت کے بقدر   رقم بیوی کو بطور مہر ادا کردے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

 "ولو قال على هذا الحر فإذا هو عبد غيره تجب قيمته ولو كان عبدها يجب مهر المثل، كذا في العتابية، وإذا تزوج امرأة على عبد بعينه فإذا هي جارية أو على ثوب مروي بعينه فإذا هو هروي فإن عليه عبدا يعدل قيمة الجارية وثوبا مرويا بقيمة الهروي، كذا في الذخيرة ولو تزوجها على هذا العبد فظهر مدبرا أو مكاتبا أو على هذه الأمة فظهرت أم ولد تجب في ذلك كله بالاتفاق، كذا في غاية السروجي سواء كانت المرأة تعلم بحال العبد أم لا، كذا في فتاوى قاضي خان".

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر،الفصل السادس في المهر الذي يوجد على خلاف المسمى،1/ 311،ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".

(4/ 61،ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو تزوجها على فرس) أو عبد أو ثوب هروي أو فراش بيت أو على معلوم من نحو إبل (فالواجب) في كل جنس له وسط (الوسط أو قيمته).

(قوله ولو تزوجها على فرس إلخ) ... وإنما تخير الزوج بين دفع الوسط أو قيمته لأن الوسط لا يعرف إلا بالقيمة فصارت أصلا في حق الإيفاء، وقيد بالمبهم لأنه في المعين بإشارة كهذا العبد أو الفرس يثبت الملك لها بمجرد القبول إن كان مملوكا له وإلا فلها أن تأخذ الزوج بشرائه لها، فإن عجز لزمه قيمته وكذا بإضافة إلى نفسه كعبدي، فلا تجبر على قبول القيمة لأن الإضافة إلى نفسه من أسباب التعريف كالإشارة لكن في هذا إذا كان له أعبد ثبت ملكها في واحد منهم وسط وعليه تعيينه، وقوله في البحر إنه يتوقف ملكها له على تعيينه غير صحيح لأنه يلزم كون الإضافة كالإبهام، فإنه في الإبهام لو عين لها وسطا أجبرت على قبوله، وتمامه في النهر."

(كتاب النكاح، باب المهر، 3/ 127،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں