والدین حیات ہیں اور ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ 6000000کی رقم ہے تو اس میں ایک بھائی کا حصہ کتنا بنے گا؟والد کی ہی ملکیت ہے۔
واضح رہے کہ جب تک والد حیات ہیں ان کا سارا مال ان کی ذاتی ملکیت ہے اس میں کسی اولاد کا شرعا کوئی حق نہیں ہے البتہ اگر والد اپنی رضامندی سے اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مناسب مقدار اپنے لیے رکھ لیں تا کہ اپنی بقیہ زندگی بغیر کسی کی محتاجگی کے گزار سکیں،باقی مال میں سے آٹھواں حصہ بیوی کو دے دیں اور بیوی کو دینے کے بعد جو بچ جائے وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کردیں۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
«ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.»
(کتاب الہبہ باب سادس ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۹۱،دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن