بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی حیات میں وفات پانے والے بیٹے کا والد کی جائیداد میں حصہ / بیوہ، بیٹی ، والد اور والدہ میں ترکہ کی تقسیم


سوال

1: والدین حیات ہیں، اور بیٹے کا  انتقال ہوچکا ہے، اور لڑکے کی بیوہ اور بیٹی بھی ہے، ایسی صورت میں والد  (جو کہ حیات ہیں) کی جائے داد میں  مرحوم بیٹے یا اس کی بیوہ یا اس کی بیٹی کا حصہ ہوگا  یا نہیں ؟

2: مذکورہ مرحوم لڑکے کے والدین لڑکی کا مہر ، لڑکے کی طرف سے ادا کرنا چاہ رہے ہیں، اسی طرح سامان جو لڑکے کے زیرِ استعمال تھا اور رقم وغیرہ دینا چاہ رہے ہیں،  تو کیا یہ چیزیں مرحوم لڑکے کی بیوہ کو دی جائیں یا اس کی بیٹی کو جو کہ پانچ یا چھ سال کی ہے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں جس بیٹے کا انتقال والد کی حیات میں ہوگیا ہے  تو  والد کے انتقال کے بعد،  ان  کے ترکہ میں سے  اس مرحوم  بیٹے کا کوئی حق و حصہ نہیں ہوگا، جب بیٹے کا حصہ نہیں ہوگا تو اس کا حصہ اس کی بیوہ یا بیٹی کو بھی نہیں ملے گا، البتہ اگر  مرحوم بیٹے   کے  والد  اپنی زندگی میں اپنی پوتی یا بہو  کو کچھ دینا چاہیں تو وہ دے سکتے ہیں، اسی طرح اگر ان کے لیے کچھ  مال وغیرہ  کی وصیت کرجائیں تو ان کے انتقال کےبعد ان کے   ایک تہائی مال  میں    سے یہ وصیت پوری کرنا لازم ہوگا اور دادا ان كوزندگی میں بھی کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

2: صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکے کے انتقال کے بعد اس  کی ملکیت میں جو کچھ تھا ، وہ سب اس کا ” ترکہ“ شمار ہوگا،  جو مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (تجہیز وتکفین، قرض  اور وصیت )  کی ادائیگی کے بعد اس کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا، اس کا طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم کے ترکہ میں  سے  اس کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،  اس کے ذمہ  جو  قرض ہے تو اس کو کل ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا، بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے تو وہ بھی قرض میں داخل ہے، اس لیے اس کو بھی  کل ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا،  اس کے بعد   اگر اس  نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی مال کے  ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 24 حصوں میں تقسیم کرکے  3 حصے مرحوم کی بیوہ کو ،  12 حصے  بیٹی کو، 4 حصے والدہ کو اور 5 حصے والد کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:24

بیوہبیٹیوالدہوالد
31245

یعنی مثلاً 100 روپے میں سے  12.50روپے مرحوم کی بیوہ کو ،  50 روپے بیٹی کو،  16.66 روپے والدہ کو، اور 20.83 روپے والد کو ملیں گے۔

اگر مرحوم کے ترکہ میں مہر کی  ادائیگی کے لیے رقم نہ ہو تو  اگر اس کے والدین اپنی خوشی سے اس کی بیوہ  کا مہر  ادا کردیں تو مہر ادا ہوجائے گا اور یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔

باقی  بیٹی کے حصے میں آنے والے مال کی حفاظت اور نگہداشت کی ولایت اس کے عاقل بالغ ہونے تک  اس کے دادا کو حاصل ہوگی۔

البحر الرائق   میں ہے:

"وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول هذا فصل اختلف المشايخ فيه قال مشايخ العراق الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث وقال مشايخ بلخ الإرث يثبت بعد موت المورث."

(9/346 ، کتاب الفرائض، ط؛ رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ووليه أبوه ثم وصيه) بعد موته ثم وصي وصيه كما في القهستاني عن العمادية (ثم) بعدهم (جده) الصحيح وإن علا (ثم وصيه) ثم وصي وصيه قهستاني زاد القهستاني والزيلعي ثم الوالي بالطريق الأولى (ثم القاضي أو وصيه) أيهما تصرف يصح فلذا لم يصح ثم (دون الأم أو وصيها) هذا في المال بخلاف النكاح كما مر في بابه".

(6/174، کتاب الماذون، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں