بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی دکان سے ان کی اجازت کے بغیر پیسے لینا


سوال

 ہم چار بھائی ہیں بڑا بھائی باپ کے میڈیسن دکان میں ہوتا ہے میں تیسرے نمبر پر ہوں میں دس سال سے اس دکان میں کام کرتا ہوں لیکن بڑا بھائی ہر چیز پر قابض اور مجھے دس ہزار تنخواہ دیتے ہے جس میں گزارہ ناممکن ہے شادی شدہ ہوں اور باپ بھی حیات ہے کیا میرے لیے دکان سے پیسے ان کے اجازت کے بغیر اپنے جیب میں ڈالنا جائز ہے یعنی اپنے بڑے بھائی سے چوری کرنا جب کہ کتنی بار کہہ چکا ہوں اسے کہ مجھے بھی برابر حصہ دیا کرو لیکن مجھے نہیں دیتے اس بارے میں کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام باقی دو بھائی روزگار پرہیں اور میں دس سال سے اسی دکان میں ہوں شادی شدہ ہوں ایک بیٹی ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب   دکان اورمکمل کاروبار والد کا ہے، اور باپ نے اگر اپنے کاروبار میں اپنے بڑے بیٹے کو تصرفات کا اختیار دیا ہے تو شرعی اعتبار سے سائل کے لیے دکان سے رقم لینے کے لیے  والد یا  بڑے بھائی کو مطلع کرنا اور ان سے اجازت لینا شرعا ضروری ہے،سائل اگر  والد کےکاروبار میں بھائی کاساتھ دیتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے لیےمحنت کے عوض والد یا بھائی سے باہمی رضامندی سے معاملات طے کرلے،معاملات طے کیے بنا اپنی مرضی  سے ان کی اجازت کے بغیر دکان سے پیسے لینا شرعا جائز نہیں ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار.

(المادة 97) :لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي.

(بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع، والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة يحق أخذ مال الغير."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ج : 1، ص : 98،ط : دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں