بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی دوکان میں کام کرنے والی اولاد کا بلااجازت متعین شدہ رقم سے زیادہ لینے کا حکم


سوال

ہم تین بھائی ہیں،  ہماری ایک دوکان ہے جو  والد صاحب کی سربراہی میں چل رہی ہے اور والد صاحب کی ہی ہے  اور ہم تینوں اس میں کام کرتے ہیں،  والد صاحب نے ہم تینوں میں سے ہر ایک کے لیے 6000ہزار ماہانہ رقم متعین کی ہے کہ اتنی رقم آپ میں سے ہرایک کواٹھانے کی اجازت ہے  اس سے زیادہ نہیں،  اب اگر میں وہ چھ ہزار جمع کرتا رہوں اور کھانے پینے  کے لیے دوسرے دو بھائیوں سے اور والد صاحب سے چھپ کر مزید رقم اٹھاتا ہوں تو  آیا یہ میرے  لیے جائز ہے یاناجائز  جب کہ کھانے پینے  کے لیے والد صاحب نے صرف چھ ہزار کی اجازت دی ہے؟  کیا قیامت کے دن مجھ سے اس کا سوال تو نہیں کیا جائے گا؟  براہِ  کرم شریعت اور دلیل  کی روشنی میں اس کا جواب دے دیں ۔

نوٹ :اس میں اس بات کا خیال رکھیں کہ اسی دوکان میں ان دونوں بھائیوں سے زیادہ محنت اگر میں کرتا ہوں تب میرے  لیے کیا حکم ہے اور اگر میں ان کے برابر کرتا ہوں تب میرے  لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں والد صاحب نےجب ماہانہ ایک مخصوص رقم متعین کردی تو تینوں بیٹے اجیرخاص   ہوئے (وہ ملازم جسے وقت اور عمل(محنت) کے بدلے اجرت ملتی ہو)اور اجیر کا مالک کی اجازت کے بغیر اس کی کوئی چیز لینا شرعاً چوری ہے جو شرعًا  ناجائز اور حرام ہے  ،  لینے کی صورت میں لوٹا نا لازمی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں تینوں میں سے کسی بھی بیٹے کا  باپ کی اجازت کے بغیر متعین شدہ رقم(تنخواہ)  سے زائد  لینا  ہر گز جائز نہیں، چاہے وہ دوسرے بیٹوں سے زیادہ کام کرتا ہو یا نہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

(وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ)

(البقرة: 188)

مشكوة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة رضى الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم: " من كانت له مظلمة لأخيه من عرضه أو شتى فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح اعدمته بقدر مظلمته."

(كتاب الآداب، باب الظلم، الفصل الأول، ص:435)

فتاوی شامی میں ہے:

"السرقة (هي) لغة أخذ الشيء من الغير ‌خفية...... وشرعا باعتبار الحرمة أخذه كذلك بغير حق نصابا كان أم لا."

(کتاب السرقۃ، ج:4، ص:82، ط:سعید)

مجمع الزوائد میں ہے:

"لا يحلُّ لمسلمٍ أن يأخذَ مالَ أخيهِ بغيرِ حقٍّ وذلِكَ لما حرَّمَ اللهُ مالَ المسلِمِ على المسلمِ أن يأخذَ عصا أخيه بغيرِ طيبِ نفسٍ . وفي روايةٍ لا يحلُّ لمسلمٍ أنْ يأخُذَ عصَا."

(ج:4، ص:174)

فتاوی شامی میں ہے:

لأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له."

(کتاب الشرکۃ: فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ، ج:4، ص:325، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں