بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے پیسوں سے باہر ملک جاکر ذاتی محنت سے کمائی ہوئی رقم میں گھر والوں کا حصہ


سوال

 میں گلف ملک میں کام کرتا ہوں،  میں اپنے ابو کے پیسوں پر یہاں  آیا ہوں،  میں نے دس سال کام کیا بھائی اور چچا لوگوں کے لیے،  لیکن میں بھائیوں سے الگ نہیں ہو سکتا ہو ں ،  میرے ابو امی کی وجہ سے،   اب میں تنخواہوں میں اپنے لیے کچھ پیسے رکھ سکتا ہوں  کہ نہیں؛ کیوں کہ میرے بھائی لوگ  بعد میں میرے گھر چلے جاتے ہیں اور بولتے  ہیں کہ گھر میں آپ کا  ایک ہی کمرہ ہے،  ہم  سب  تقسیم کرتے ہیں،  میں نے گھر اور بنایا  ہے اور ان لوگوں کو پڑھا کر بڑا کیا، شادی کے بعد وہ  میرا ساتھ  نہیں دیتے ہیں۔

 اب میرے ایک بھائی نے شادی کی اس پر میں نے  خرچ کیا اور مجھے بولتا ہے کہ آپ نے کتنا پیسہ رکھا ہے وہ تقسیم کرو۔ اس کے بارے میں کچھ  راہ نمائی فرمائیں ، ابھی میرے اور 6 بھائی  ہیں؛  اس لیے میں سوچتا ہوں کہ میری زندگی کا بھی کچھ معلوم نہیں، 10سال سے باہر ہوں  اور ایک پیسہ اپنے لیے نہیں رکھا ہے،  اب میں تنخواہ سے کچھ پیسہ رکھا سکتا ہوں  کہ نہیں  اور  میں  ان کو بتانا نہیں چاہتاہوں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  آپ کے والد نے جو اپنے  پیسوں سے آپ کو باہر ملک کام کے لیے بھیجا تھا  تو اگر اس وقت رقم خرچ کرتے وقت یہ صراحت کی تھی کہ یہ رقم قرض کے طور پر  دے رہا ہوں تو اس صورت میں اس قدر رقم واپس کرنا آپ کے  ذمے لازم ہوگا، اور اگر اس وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی ہو  تو یہ والد کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، دونوں صورتوں میں آپ وہاں جاکر اپنی محنت سے جو کمائیں گے وہ آپ کی اپنی ذاتی ملکیت ہے، اس میں والدین، یا بہن بھائیوں یا چچا  کا آپ کی زندگی میں کسی قسم کا کوئی حق وحصہ نہیں ہے۔

نیز آپ  اب تک  اپنی  محنت سے کمائی گئی رقم   جو اپنے گھر بھیجتے رہیں اور اس میں  کسی قسم کی ملکیت کی صراحت نہیں کی تھی اور نہ  کوئی معاہدہ کیا تھا، بلکہ گھر والوں کے تعاون کے لیے وہ رقم بھیجتے رہے تھے تو اس صورت میں یہ آپ کی طرف سے تبرع واحسان تھا، اب اس کے مطالبہ کا حق نہیں ہے، اور  اس رقم سے آپ کے والدین کے مکان  پر  جو کام وغیرہ ہوا ہے وہ سب والدین کا ہی شمار ہوگا، اگر وہ حیات نہ ہوں تو ان کا ترکہ شمار ہوگا۔

حاصل یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی محنت سے جو کچھ کمارہے ہیں وہ آپ کی ذاتی ملکیت ہے، اس میں کسی اور کا حق وحصہ نہیں ہے،  اس لیے آپ اس رقم میں سے جتنی چاہیں اپنے لیے رکھ سکتے ہیں، اس کے لیے گھر والوں سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں ہے، اور جس قدر چاہیں ان کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں،  یہ آپ کی طرف سے تبرع واحسان   ہوگا اور  آپ کے لیے ثواب کا ذریعہ ہوگا۔

شرح المجلہ میں ہے:

"کل یتصرف في ملکه کیف شاء".

(4/132، مادہ:1192،  الفصل الأول في بیان بعض قواعد في أحکام الأملاك، ط: رشیدیة)

 تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره".

(2/391، کتاب المدینات، ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں