والد کی وفات کے بعد گھر بیچنے کے متعلق ایک سوال ہے ،والد جب حیات تھے تو گھر پر ایک نئی منزل تعمیر ہوئی ،جس میں ایک بیٹے نے پیسے لگائےتو کیا تقسیم کے وقت وہ پیسے الگ کیے جا سکتے ہیں یا مکمل گھر مع نئی تعمیر میراث میں تقسیم ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹے نے پیسے لگاتے وقت اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطور قرضہ ہے یا یہ کہ ان پیسوں کا عوض میں لوں گا تو اس مذکورہ گھر میں سے اپنا خرچہ الگ کر سکتے ہیں ،اگر اس طرح کی کوئی صراحت نہیں کی تھی تو پورا گھر والد کی میراث میں شمار ہوگا ۔
شرح مجلۃ الاحکام لعلي حيدر میں ہے:
"أما إذا بنى للشركة بدون إذن شريكه فيكون البناء مشتركا والباني متبرعا بمصرفه على البناء وليس له الرجوع على شريكه بحصته من المصرف."
(الكتاب العاشر الشركات،باب في بيان القسمة،الفصل الثامن في بيان أحكام القسمة،(المادة 1173) بنى أحد الشركاء لنفسه في الملك بدون إذن الآخرين،ج3،ص181،ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100789
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن