بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے فوت ہوجانے کی صورت میں اس کے بچوں کو دادا کی میراث سے حصہ نہ ملنے کی حکمت


سوال

والد سے پہلے جب بیٹا فوت ہو جائے تو اس کے بچوں کو جائیداد میں حصہ کیوں نہیں ملتا؟

جواب

 حقِ وراثت کا مدار فقر و تنگ دستی پر نہیں رکھا گیااور نہ ہی مالی لحاظ سے احتیاج و ضرورت پر رکھا گیاہے، بلکہ اس کا مدار  قرابت داری کی قوت  پر رکھا گیاہے، قرابت داری پر مدار ہونے کی بنا پر میت کے ساتھ رشتہ میں جو زیادہ قریب ہوگا وہ استحقاقِ وراثت میں مقدم ہوگا، اور اس کی موجودگی میں دیگر وہ رشتہ دار جو قرابت داری میں دور ہوں گے وہ محروم قرار پائیں گے۔ پوتا علی الاطلاق محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جب کہ دادا کی مذکر اولاد موجود ہو۔

اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت نے ترکے  کی تقسیم میں قریب سے قریب ترکا اعتبار کیا ہے، قرآن کریم میں  ورثاء اور ان کے احوال وسہام کی تفصیل ذکرکرتے ہوئے واضح انداز میں  مذکورہے : 

"آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا" ﴿النساء: ١١﴾

ترجمه :"تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو کہ ان میں کونسا شخص تم کو نفع پہنچانے میں نزدیک تر ہے۔ یہ حکم منجانب اللہ مقرر کردیا گیا بالیقین اللہ تعالیٰ بڑے علم اور حکمت والے ہیں۔"(ترجمہ از  بیان القرآن)

خلاصہ  یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار  کا تعلق دور کے رشتے دار کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ،بیٹا چوں کہ پوتے کے مقابلہ میں زیادہ قریب  ہے؛  اس لیے اصولاً وہی مستحق وراثت ہے؛ البتہ اگر میت کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا زندہ نہ ہو اور پوتے پوتیاں زندہ ہوں تو  پوتے پوتیاں اس کے وارث بنتےہیں ؛ کیوں کہ اب ان سے زیادہ قریب   کوئی موجود نہیں۔

البتہ انسان کو اپنی زندگی میں آثارِ موت ومرضِ وفات سے پہلے اپنی تمام جائیداد میں تصرف کا حق حاصل ہے، نیز موت کے بعد ایک تہائی مال کی وصیت کا حق بھی حاصل ہے، لہٰذا جو رشتہ دار شرعی طور پر وارث نہ بن رہے ہوں لیکن وہ مستحق ا ور ضرورت مند ہوں تو آدمی اپنی زندگی میں انہیں ہبہ  اورگفٹ کرسکتاہے اور مرنے کے بعد ایک تہائی ترکے کی حد تک ان کے لیے وصیت بھی کرسکتاہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اخلاقی طور پر دادا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوتوں کےگزر بسر کے لیے کوئی انتظام کرکے جائے، خواہ وہ رجسٹرڈ وصیت کی شکل میں ہو یا زندگی میں ہبہ   اورگفٹ کے ذریعہ ہو۔  نیز چچا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے ساتھ شفقت وہم دردی اور ایثار کا معاملہ کرے، اور یتیموں کی کفالت کے متعلق جو بشارتیں  ہیں ان کا مستحق بنے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ شریعت نے یتیم پوتے، پوتی کے حقوق کا خیال نہیں رکھا ، بلکہ یہ اسلامی احکام کاامتیاز اور حسن ہے کہ ہر ایک کو اپنی حیثیت کے مطابق اس کا حق دیا گیاہے، چنانچہ یتیم کی کفالت کا انتظام اسلامی تعلیمات میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

 اگر کوئی دادا یا چچا ان بچوں کے حقوق کا خیال نہ کرے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہوگی، ان کے اس رویہ کی بنا پر شریعت کے احکام پر اعتراض کرناہرگز درست نہیں ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولی رجل ذکر."

(باب ميراث الولد من أبيه وأمه، (8/ 150،ط:دار طوق النجاة)

تکملہ فتح الملھم میں ہے:

"وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن."

(تکملة فتح الملهم،2 /20،دار إحياء التراث العربي)

تکملہ فتح الملھم میں ہے:

"ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذهب المیراث کله إلی الیتامیٰ والمساکین … وأن معیار الإرث لیس هو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما هو الأقربیة إلی المیت."

(تکملة فتح الملهم 2 /19،دار إحياء الترا العربي)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

‌‌"الإرث لغة: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. وفقهاً: ما خلفه الميت من الأموال والحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."

(الفصل الاول، تعریف علم المیراث 10/ 7697  ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں