بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے انتقال کے صدمے پر صبر کرنے کا اجر اور ان کے ایصالِ ثواب کا طریقہ


سوال

 میرے  والد  صاحب  کا انتقال ہوگیا، سخت رنجیدہ ہوں، ہر وقت ان کی باتیں یادیں دل کو پریشان کرتی ہیں۔  ان کے ایصالِ ثواب کے  لیے مسنون دعائیں عبادتیں  اور اعمال وظائف بتائیں !

جواب

دنیا میں جتنی بھی مخلوق ہے،   ان سب کو ایک نہ ایک دن  موت آنی ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے،  کسی بھی نفس کو بقا نہیں ہے، ہمیشہ رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے،    جو کچھ بھی اللہ نے دنیا میں کسی کو دیا ہے وہ  اسی کا ہے ، اور کسی کو جو کچھ دے  گا وہ بھی اسی کا ہے ،  ہر چیز ہر حال میں اُسی کی ہے ، وہ  اگر کسی کو کچھ  دیتا ہے تو اپنی چیز دیتا ہے اور کسی سے لیتا ہے تو اپنی چیز لیتا ہے  اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے  اور اس وقت کے آ جانے پر وہ چیز اس دنیا سے اٹھا لی جاتی ہے ۔

دنیا میں انسانوں کا باہم انسیت کا رشتہ اور تعلق ہوتا ہے، ہر ایک کسی نہ کسی خاندان سے وابستہ ہوتا ہے،   کوئی والد ، کوئی بیٹا ہے،  کوئی ماں تو کوئی بیٹی ہے، خونی  نسبی رشتے بھی ہیں اور سسرالی رشتے بھی ہیں، اور یہ سب اللہ ہی نعمت اور عطاء ہے کہ اس نے  ان میں آپس میں تعلق رکھا ہے، باہم محبت پیدا کی ہے، اسی وجہ سے جب ان میں سے کوئی دنیا میں اپنا وقت مکمل کرکے اپنی حقیقی خالق سے جا ملتا ہے تو پسماندگان کے لیے یہ بہت ہی بڑا صدمہ اور تکلیف ہوتی ہے،   تو اس کریم ذات   نے  مزید یہ بھی احسان کیا کہ   اپنی ہی چیز کے واپس لینے  سے  اس کی مخلوق کو جو  صدمہ پہنچا اس پر صبر کرنے پر اس نے بے شمار انعامات  ، ثواب اور جنت  کا وعدہ فرمایا ہے۔

قرآن مجید میں مصائب پر صبر کرنے والے بندوں کو  تین چیزوں کی بشارت دی گئی ہے:

(1) ان پر اللہ کی خاص نوازش وعنایت ہوگی۔ (2) ان پر رحمت نازل ہوگی۔(3) وہ ہدایت پائیں گے۔

{أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ} [البقرۃ: 2:157]

ترجمہ:  ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بلاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال) تک رسائی ہوگئی۔(بیان القرآن)

رسول اللہ کی احادیث مبارکہ میں  اپنے اعزہ واقارب کی جدائی کے صدمہ پر صبر کرنے پر بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يقول الله تعالى: ما لعبدي المؤمن عندي جزاء، إذا قبضت صفيه من أهل الدنيا ثم احتسبه، إلا الجنة "

 (صحيح البخاري (8 / 90)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا " اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کے عزیز و محبوب کو جو اہل دنیا سے اٹھا لیتا ہوں اور وہ بندہ اس پر ثواب کا طلب گار ہوتا ہے (یعنی صبر کرتا ہے) تو میرے پاس اس کے لئے جنت سے بہتر کوئی جزاء نہیں ہے" ۔ 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا اہل دنیا میں سے کوئی عزیز محبوب جیسے اولاد باپ ماں یا ان کے علاوہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ عزیز و محبوب رکھتا تھا انتقال کر جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے اس صبر کی بناء پر اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔

نیز واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو ثواب پہنچانا شرعاً درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے۔

لہذا والدین کو ثواب پہنچانے کے لیے یہ  سب اعمال کیے جاسکتے ہیں کہ  نفلی عبادات کرکے اس کا ثواب ان کو بخش دیا جائے، ان کی طرف سے غرباء اور مساکین پر صدقہ کیا جائے، ان کے ثواب کے لیے کہیں کنواں کھود دیا جائے، الغرض ان تمام نیک کاموں کا ثواب والدین کو پہنچایا جاسکتا ہے۔

نیز والدین کی قبر پر جاکر بھی ان کے لیے ایصالِ ثواب کرنا چاہیے،   قبرستان میں   قبر کے پاس  سورہ یاسین پڑھ کردعا مانگنا مردوں کے لیے باعثِ مغفرت اور  مستحب عمل ہے۔

حدیث شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

"جوشخص قبرستان میں داخل ہوجائے اور سورہ یاسین پڑھے تو اللہ تعالی اس دن مردوں سے عذاب ہلکا فرمادیتے ہیں، اور جو شخص اپنے والدین کی قبر کی زیارت کرے پھر ان کی قبر کے پاس سورہ یاسین پڑھے تو ان کی مغفرت بخشش ہوجاتی ہے"۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"قال الخطابي: فيه دليل على استحباب تلاوة الكتاب العزيز على القبور؛ لأنه إذا كان يرجى عن الميت التخفيف بتسبيح الشجر، فتلاوة القرآن العظيم أعظم رجاءً و بركةً. وفي (سننه) أيضًا عن أنس يرفعه: (من دخل المقابر فقرأ سورة: يس، خفف الله عنهم يومئذٍ). وعن أبي بكر الصديق، رضي الله تعالى عنه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من زار قبر والديه أو أحدهما، فقرأ عنده، أو عندهما يس، غفر له)."

(باب مجاء في غسل البول، ج:3، ص:118، ط:دارإحياء التراث العربى) 

ایک اور حدیث میں ہے:

"حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور فرمایا کہ یہ سعد کی والدہ کے لیے ہے۔"

مشكاة المصابيح (1/ 597):

"وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي".

ایک اور حدیث میں ہے:

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے پوچھا: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔"

صحيح مسلم (3/ 1254):

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»".

ایک اور روایت میں ہے:

"حضرت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریمﷺسےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔

سنن أبي داود (4/ 336):

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاءه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لاتوصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»".

 البتہ ایصالِِ ثواب کے لیے شریعتِ مطہرہ نے کوئی دن یا وقت یا خاص طریقہ متعین نہیں کیا ہے، لہذا اس کے  لیے سال بھر میں ایک دن برسی یا عرس کے نام سے متعین کرنا، یا موت کے تیسرے دن یا دسویں دن یا گیارہویں دن یا چالیسویں دن خاص اہتمام کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں