میرے والد صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ اکثر میرے پاس کچھ رقم بطور امانت رکھوایا کرتے تھے، پھر ان پر کچھ عرصہ بیماری کا گزرا ، جب وہ صحت یاب ہوئے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ اس رقم کا کیا کیا جائے؟ تو انہوں نے کہا کہ تقسیم کر دو ،میں نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ یہ رقم اتنی زیادہ تو نہیں ہے کہ اس کو تقسیم کیا جائے، البتہ اس کو کسی خیر کے کام میں لگا دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ جو تم کو بہتر لگے، پھر کچھ ہی عرصہ گزرا تو ان کا انتقال ہوگیا، ا ب آپ حضرات سے اس بارے میں رہنمائی لینی ہے کہ اس رقم کا کیا کیا جائے؟ آیا کہ اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے یا اس کو کسی خیر کے کام میں خرچ کیا جائے ؟ ورثاء میں ہم 5بھائی 4 بہن اور والدہ ہیں ۔
مرض الموت میں آدمی کے مال کے ساتھ ورثاء کا حق متعلق ہو جاتا ہے اسی وجہ سے آدمی کا مرض الموت میں صدقہ وصیت اور ہدیہ ایک ثلث سے ذیادہ میں نافذ نہیں ہوتا ، اور مرنے کے بعد تمام مال ورثاء کا ہوجاتا ہے، لہذا مذکورہ تمام مال مرحوم کے ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے، پھر اس کے بعد باقی تمام متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 120 حصوں میں کر کے 14 حصے مرحوم کی بیوہ کو دیے جائیں، اور چودہ چودہ حصے ہر بیٹے کو دیے جائیں اور سات سات حصے ہر بیٹی کو دیے جائیں ۔
میت والد ، مسئلہ: 8 /120
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 11.66 فیصد ، اور ہر بیٹے کو بھی 11.66 فیصد ،اور بیٹی کو 5.83 فیصد ہر دیا جائے ۔
واضح رہے کہ سائل کے دادا یا دادی کے ہوتے ہوئے حصے مختلف ہوں گے ۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن